بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف حالیہ احتجاج میں درجنوں ہلاکتوں اور سینکڑوں زخمیوں کے بعد اب ملک بھر میں سوگ منایا جارہا ہے۔ دوسری جانب حسینہ واجد حکومت کی جانب سے مخالفین اور مظاہرین کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک ایک اندازے کے مطابق دس ہزار افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔
حالیہ طلبہ احتجاج کے بعد حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ جماعت کے طلبہ ونگ شبر پر بھی پابندی عائد کی جائے گی۔ جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینےپر پہلے ہی پابندی عائد ہے اور اب جماعت اسلامی پر پابندی اور کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد انہیں کسی قسم کے اجتماع کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے مظاہروں پر طاقت کے استعمال کو حسینہ واجد کی 15 سالہ حکومت کا سب سے بدترین تشدد قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم سیاسی مخالفین پر الیکشن لڑنے کی پابندی، اور جن جماعتوں کوالیکشن کی اجازت ہے ان کے رہنماؤں کے جیل میں ہونے کی وجہ سے بننے والی حسینہ واجد حکومت کسی طور احتجاج کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کے دھرنے کے مطالبات کیا ہیں
حالیہ دنوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر طاقت کے استعمال کو حسینہ واجد حکومت نے ڈیفنڈ کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں کو بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے ڈالا ہے۔
بنگہ دیش میں سپریم کورٹ سے بھی ریلیف نہ ملنے کے بعد جماعت اسلامی پر الیکشن لڑنے کی پابندی عائد ہے جبکہ اب طلبہ یونین پر پابندی کے بعد جماعت بالکل ہی سائیڈ لائن کر دی جائے گی۔
جماعت اسلامی کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو 1971 کی جنگ میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی بھی دی جا چکی ہے۔ پاکستان میں تاہم جماعت اسلامی کو اہمیت حاصل ہے اور اس وقت بھی جاری دھرنے کو حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔