اہم خبریںدنیا

اسرائیل اور حماس میں غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق

قیدیوں کی رہائی کا یہ مرحلہ پیر کے روز تک مکمل ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی کے منگل کے روز سیز فائر کے دوسرے مرحلے پر بات چیت متوقع ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق طے پاگیا ہے۔ اس سے دو سال سے جاری وحشیانہ جنگ جس میں ہزاروں فلسطینی لقمہ اجل بنے، اب اختتام کی طرف جاتی نظر آرہی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس معاہدے کا اعلان کیا گیا۔

امریکہ کے ساتھ ترکی، مصر اور قطر کی جانب سے غزہ امن معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا گیا۔

 

ٹرمپ کی جانب سے غزہ امن منصوبے کا اعلان:

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ اور جمعرات کے درمیانی شب ایکس اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کے ذریعے منصوبے کا اعلان کیا ۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ” مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے بہت فخر ہے کہ اسرائیل اور حماس دونوں نے ہمارے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں۔”

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ” اس کا مطلب ہے کہ تمام یرغمالیوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا، اور اسرائیل ایک مضبوط، پائیدار، اور لازوال امن کی طرف پہلا قدم کے طور پر اپنی فوجوں کو ایک متفقہ لائن پر واپس لے جائے گا۔ تمام جماعتوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔”

ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید لکھا کہ ” یہ عرب اور مسلم دنیا، اسرائیل، تمام آس پاس کی اقوام اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے ایک عظیم دن ہے۔ ”

ثالثی کا کردار ادا کرنے والے دیگر ممالک کو سراہتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم قطر، مصر اور ترکی کے ثالثوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے اس تاریخی اور بے مثال واقعے کو انجام دینے کے لیے ہمارے ساتھ کام کیا۔

 

سیز فائر منصوبے کا پہلا مرحلہ؛ کیا کیا شامل ہے؟

 

اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق حماس کی جانب سے 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ جبکہ اس کے بدلے میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے 2 ہزار فلسطینی قیدیوں اور یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔

آج (جمعرات ) کے روز اس معاہدے پر دستخط کے بعد 72 گھنٹے میں قیدیوں کا یہ تبادلہ کیا جائے گا۔

قیدیوں کی رہائی کا یہ مرحلہ پیر کے روز تک مکمل ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر یعنی کے منگل کے روز سیز فائر کے دوسرے مرحلے پر بات چیت متوقع ہے۔

معاہدے کے مطابق اسرائیل اپنے فورسز کو ایک طے شدہ لائن سے پیھچے ہٹا لےگا۔

اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کے غزہ میں داخلے کی بھی اجازت ہو گی جہاں اس وقت انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔

 

اسرائیلی رد عمل:

 

معاہدے کے اعلان کے بعد اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے لکھا کہ منصوبے کے پہلے مرحلے کی منظوری کے بعد ہمارے تمام مغویوں کو گھر لایا جائے گا۔ یہ ایک سفارتی کامیابی ہے اور اسرائیل کی ریاست کی قومی اور اخلاقی فتح ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ "میں نے شروع سے ہی یہ واضح کر دیا تھا: ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہمارے تمام یرغمال واپس نہیں آ جاتے اور ہمارے تمام مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔”

ان کا کہنا تھا کہ "ثابت قدمی، طاقتور فوجی کارروائی اور اپنے عظیم دوست اور اتحادی صدر ٹرمپ کی عظیم کوششوں کے ذریعے ہم اس نازک موڑ پر پہنچے ہیں۔”

ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے نیتن یاہو بولے کہ "میں صدر ٹرمپ کی قیادت، ان کی شراکت داری، اور اسرائیل کی حفاظت اور ہمارے یرغمالیوں کی آزادی کے لیے ان کے غیر متزلزل عزم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔”

 

حماس اور فلسطین کا رد عمل:

 

حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بردار ممالک قطر، ترکی اور مصر کے ثالثی کے کردار اور امریکی صدر کی جانب سے جنگ کے  مکمل خاتمے کے عزم کو سراہا گیا۔

حماس کی جانب سے معاہدے کے ضامن ممالک اور صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا گیا کہ قابض اسرائیلی فورسز کو معاہدے کا پابند بنایا جائے اورعملدرآمد میں تاخیر نہ کی جائے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ امن منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ دو ریاستی حل تک پہنچنے میں مدد دے گا۔

انہوں نے ٹرمپ سمیت دیگر ثالث ممالک کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے منصوبے کا کامیاب بنانے کیلئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بھی معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا۔

 

غزہ امن منصوبے پر فلسطینی عوام کا رد عمل اور مستقبل کی امید:

 

غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے طے پا جانے کے بعد فلسطینی عوام کی جانب سے خوشی اور امید کا اظہار کیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دو سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں اب تک 70 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اس  میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

اس کے علاوہ ملبے سے مزید لاشیں ملنے کا خطرہ بھی ہے جسے سیز فائر ہونے کے بعد ہٹایا جائے گا۔

دوسری طرف امداد نہ پہنچ پانے سے غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔

ٹرمپ اور ثالث ممالک پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منصوبہ پر من و عن عمل کرائیں ۔ ساتھ ہی غزہ کی جانب امداد کا منہ کھول دیا جائے تاکہ تباہ شدہ غزہ میں زندگی معمول پر لائی جا سکے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button