انسانی حقوق کا عالمی دن اور پیشہ ور تنظیمیں

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کی بہت بڑی آبادی جب ایک کام نہ کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس خلا کو پر کرنے کیلئے دنیا میں نیا پیشہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانوں کی بڑی آبادی نے جب اپنی ضروریات زندگی کی خریداری کیلئے وقت کی کمی کا شکوہ کیا تو دنیا میں آن لائن ڈلیوری کا پیشہ وجود میں آیا۔ اسی طرح جب انسانوں کی ایک بڑی آبادی نے اپنے بچوں کی نگہداشت کیلئے وقت نہ ہونے کا عذر پیش کیا تو ڈے کیئر کا پیشہ وجود میں آیا۔ اسی طرح جب انسانوں کی ایک بڑی آبادی نے حقوق ادا کرنے سے ہاتھ اٹھایا تو انسانی حقوق کی تنظیمیں وجود میں آئیں۔
یہ تنظیمیں بڑے بڑے نام رکھتی ہیں، سالہا سال ان کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن انسانی حقوق کی ان تنظیموں کی نہ تو کوئی سنتا ہے اور نہ ہی کوئی مانتا ہے۔ جیسے جیسے انسانی حقوق کی ان تنظیموں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ، ویسے ویسے حقوق ادا کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
آج دنیا جس دور سے گزرر رہی ہے اس افسوسناک دور کبھی نہ گزرا تھا۔ فلسطین کی مسلمانوں کی حالت زار ہو یا کشمیروں کی جدو جہد آزادی، ہر طرف درد ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف بیانات جاری کرنے تک محدود ہیں۔ ان کی اتھارٹی ماننے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور اب تو دنیا کو انسانی حقوق صرف 10 دسمبر کو ہی یاد آنے لگے ہیں جب یہ انسانی حقوق کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور چند سیمینار اور عزم کے اظہار سے معاملہ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔
مزید پڑھیں:دلہن نہ ڈھونڈ کے دینے پر رشتہ ویب سائٹ کو بھاری جرمانہ
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد سے شاید ہی ان تنظیموں نے انسانی حقوق کی پامالیوں کا کوئی واقعہ نمٹایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ظلم کرنے والے ممالک انہیں کسی خاطر میں نہیں لاتے، مظلوم ممالک بھی داد رسی میں ناکامی پر ان تنظیموں پر تین حرف بھیجتے رہتے ہیں۔
انسانی حقوق کی ادائیگی میں جو سستی آج دیکھی گئی ہے ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔ ایسے میں انسانی حقوق کا عالمی دن منانا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا بے تحاشا نمبروں میں ہونے کے باوجود بھی انسانی المیوں کا جنم لینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صرف سیمینار ، تقریریں اور دن منانا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایسے میں جو بات شروع میں چل نکلی تھی اسی کو آگے بڑھتے ہوئے ان تنظیموں کو پیشہ ور کہنا شاید درست ہو۔