اہم خبریںپاکستان

عمران خان کی گرفتاری، بڑے میڈیا گروپ کیلئے اعزاز کی بات

پاکستان میں صحافت سراسر سیاست میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کئی صحافی ایسے ہیں جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں عہدے انجوائے کرنے کے بعد پھر سے صحافی بن بیٹھے ہیں۔ انہیں ان پارٹیوں کے مخالف، یعنی کہ پی ٹی آئی کو روندنے پر باقاعدہ نوازا بھی جاتا ہے۔ شہباز حکومت کی جانب سے تمغوں کی تقسیم نے بھی اس حقیقت کا آشکار کیا تھا۔
جنگ میڈیا گروپ کی پی ٹی آئی اور عمران خان سے چپقلش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ عمران خان بھی سرعام اپنے جلسوں میں جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان اور ان کے میڈیا گروپ کو سر عام تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
لیکن صحافت کا کام خبر پہنچانا ہے، کسی سیاسی جماعت کی برانڈنگ کرنا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان جنگ گروپ کو شریف خاندان کا قریبی گروپ ہونے کی وجہ سے روندتے آئے ہیں۔
عمران خان گزشتہ دنوں عدت کیس میں بری ہوئے تو ان پر اس وقت بظاہر کوئی ایسا کیس نہ تھا جس میں وہ مطلوب ہوں اور ان کی رہائی نظر آرہی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی کو یہ حقیقت بھی معلوم تھی کے اتنی آسانی سے عمران خان کو باہر آنے نہیں دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: عدت کیس پر شاہزیب خانزادہ کو معافی کیوں مانگنی چاہیے

یوں انہیں پہلے نئے توشہ خانہ کیس میں گرفتار کیا گیااور بعدازاں انہیں 9 مئی کے کیسز میں بھی نامزد کر دیا گیا۔ اس سے اگلے روز جنگ اخبار میں ایک خبر چھپی جسے دیکھ کر صحافتی اقدار کا جنازہ پڑھنے کا دل کرتا ہے۔

 


جنگ اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کی ہیڈ لائن کچھ یوں تھی: جنگ کا اعزاز، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی پھر گرفتاری کی خبر ایک ماہ پہلے دی۔
عمران خان کے گرفتاری پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا چینل کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ یہ پڑھ کر شاید کوئی صحافتی اقدار کا حامل شخص سوال کرتا کہ بھائی یہ کوئی ٹائپنگ کی غلطی تو نہیں۔ کیا جنگ اخبار کی مراد یہ تو نہیں تھی کہ : ن لیگ کیلئے اعزاز کی بات۔
تاہم جنگ اخبار نے اس پر اپنی پرانی خبر نتھی کر کے اور تفصیلات سے بھرپور سٹوری لکھی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ کوئی ٹائپنگ کی غلطی نہیں، صحافتی اقدار کا جنازہ ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button