
مسلسل پانچویں بار ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے چوتھے سب سے کمزور پاسپوٹ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
اس ریکنگ نے ملک کی بیرونی پالیسی، سفارتی رسائی، اور بین الاقوامی مفادات کے تحفظ و فروغ کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان کو 199 پاسپورٹس کی درجہ بندی میں 103 نمبر ملا ہے۔ یہ درجہ بندی یمن کو بھی حاصل ہے۔
پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افراد کو 227 ممالک میں سے صرف 31 مقامات پر بغیر ویزا یا ویزا آن ارائیول کے داخلہ کی اجازت ہے۔ پاسپورٹ انڈیکس میں صرف عراق (104)، شام (105) اور افغانستان (106) پاکستان سے نیچے ہیں۔
اگرچہ یہ درجہ بندی بعض لوگوں کو صرف علامتی محسوس ہو سکتی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کو لاحق وسیع تر سفارتی، سیکیورٹی اور عالمی شراکت داری کے مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔
پاکستانی پاسپورٹ کے کمزور پاسپورٹ کے اشارے:
اعتماد میں کمی
ویزا فری رسائی عام طور پر یہ مفروضہ مانتی ہے کہ مسافر ملک سے متعلق غیر قانونی رہائش یا بدامنی کا خطرہ کم ہو۔ پاکستان کی درجہ بندی ظاہر کرتی ہے کہ متعدد ممالک پاکستان سے آنے والوں کو زیادہ رسک سمجھتے ہیں۔
مواصلاتی اخراجات:
کاروباری افراد، طلباء اور سیّاحوں کے لیے یہ کم رسائی اضافی ویزا، دستاویزات، اور لاگت کا سبب بنتی ہے جو سفر اور بین الاقوامی روابط کو محدود کر دیتی ہے۔
سفارتی اثر و رسوخ پر اثر:
مضبوط پاسپورٹ نہ صرف شہریوں کی نقل و حرکت کو آسان بناتا ہے، بلکہ دوسرے ممالک کے ساتھ مساوی سطح پر مذاکرات اور ویزا سہولتوں کی درخواست میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بیرونی پالیسی پر دباؤ
ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگیاں
- افغانستان کے ساتھ سرحدی دہشت گردی اور ٹی ٹی پی (TTP) جیسے گروہوں کی سرگرمیاں تعلقات کو متاثر کرتی ہیں، اور پاکستان کا الزام کہ کابل سرحد پار دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے، تناؤ کو بڑھاتا ہے۔
- بھارت کے ساتھ کشمیر کا تنازعہ اب بھی حل طلب ہے، اور سفارتی طور پر کسی مؤثر پیش رفت کی کمی رہی ہے۔
عالمی طاقتوں کے توازن کی کوشش
چین پاکستان کا کلیدی شراکت دار ہے، خصوصاً اقتصادی منصوبوں اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں، لیکن قرض کی sustainability اور خودمختاری کے سوالات بھی اٹھتے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات ابھی بھی اہم ہیں، اقتصادی مفادات، سرمایہ کاری، اور عالمی مالیاتی اداروں کی شمولیت کی بنا پر۔
داخلی رکاوٹیں
- اقتصادی بحران، سیاسی عدم استحکام، داخلی سیکیورٹی خطرات پاکستان کی سفارتی پوزیشن کمزور کرتے ہیں۔
- حکومتی اور ادارہ جاتی استحکام کی کمی بیرونی پالیسیاں مسلسل اور مؤثر بنانے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
پالیسی ردعمل اور حالیہ تبدیلیاں
- حکومت نے بیرونی پالیسی میں جیو-اقتصادی اقدام پر زور دیا ہے: تجارتی روابط، علاقائی تعاون اور مواصلاتی رابطے بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
- ویزا سہولتوں میں بہتری یا ویزا معافی معاہدوں پر کام ہونے لگا ہے، اگرچہ ابھی بڑے پیمانے پر کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔
- مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ علاقائی کشیدگیوں سے نقصان کم ہو۔
کیا خطرات لاحق ہیں
اگر پاکستان سفارتی اعتبار سے اپنی ساکھ اور شہریوں کی نقل و حرکت میں بہتری نہ لا سکے تو درج ذیل خطرات سامنے ہیں:
- تجارتی اور سیاحتی شعبوں میں مواقع سے محرومیت؛
- بیرونی لوگ اور طلباء کم بین الاقوامی روابط کی وجہ سے کم مواقع پائیں گے؛
- مغربی ممالک اور دیگر اہم شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات میں کمزور موقف؛
- دماغی مگرُو کی روانگی (brain drain) اور عالمی سطح پر شہریوں کے مواقع میں کمی۔
پاکستانی پاسپورٹ اور آئندہ کا منظر نامہ
بہتری کے لیے کوششیں مندرجہ ذیل میدانوں میں ضروری ہیں:
- مزید ممالک کے ساتھ ویزا معافی یا آسان ویزا انتظامات کا قیام؛
- داخلی سیکیورٹی، دستاویزات کی جانچ اور پاسپورٹ کے غلط استعمال کی روک تھام سے عالمی اعتماد بحال کرنا؛
- مستقل اور واضح بیرونی پالیسی حکمت عملی تیار کرنا، نہ کہ عارضی ردعمل؛
- شراکت داریوں کی گوناگونی، نرم طاقت (soft power) اور سفارتکاری کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانا۔
نتیجہ
پاکستان کا کمزور پاسپورٹ صرف ایک غیر آرام دہ حقیقت نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو بیرونی پالیسی کی کمزوریوں، سفارتی اثر کی کمی اور عالمی سطح پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
اگر ملک شہریوں کی نقل و حرکت، تجارتی شراکت داری اور عالمی شمولیت میں بہتری لانا چاہتا ہے تو اسے نہ صرف علاقائی اور عالمی تعلقات بہتر بنانے ہوں گے، بلکہ اپنے اندرونی نظام، شفافیت اور اعتماد سازی کے عمل کو بھی مضبوط کرنا پڑے گا۔