غزہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملہ، 200 سے زائد فلسطینی عورتیں بچے شہید
چند روز قبل رفح میں پناہ گزین کیمپ کر حملے کو سنگین غلطی قرار دینے کے باوجود بھی اسرائیل نے ایک اور پناہ گزین کیمپ کو نشانہ بنا ڈالا۔

ہسپتال، سکول ، مساجد اور پناہ گزین کیمپ بھی اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ بمباری سے محفوظ نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک کارروائی میں صہیونی فورسز نے ایک بار پھر پناہ گزین کیمپ کو نشانہ بنا ڈالا۔
اسرائیلی کی وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، اور چند روز قبل رفح میں پناہ گزین کیمپ کر حملے کو سنگین غلطی قرار دینے کے باوجود بھی اسرائیل نے ایک اور پناہ گزین کیمپ کو نشانہ بنا ڈالا۔
غزہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملہ:
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق النصیرات پناہ گزین کیمپ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 200 سے زائد افراد کے شہید اور 400 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی بتائی جارہی ہے۔
ایک مقامی شخص نے بین الاقوامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ساری رات لوگ جان بچانے کیلئے نکلنے کی کوشش کرتے رہے تاہم اسرائیلی فورسز نے نکلنے کی کوشش کرنے والوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
دوسری جانب زخمیوں میں سے بھی مزید ہلاکتوں کا اندیشہ ہے کیونکہ وزارتِ صحت کے ترجمان کے مطابق غزہ کا واحد فعال ہسپتال الاقصیٰ شہدا ہسپتال جنریٹر کے سہارے چل رہا ہے جو کسی بھی وقت بند ہو سکتا ہے اور یہاں سڑکوں پر زخمیوں پر قطاریں ہیں۔
فلسطینی نیوز ایجنسی کے مطابق ہسپتال کا مرکزی جنریٹر اس وقت کام کرنا بند کر گیا جب اسرائیل نے الاقصیٰ شہدا ہسپتال کو نشانہ بنایا۔ فلسطین میں اس وقت دواؤں اور طبی سامان کی شدید قلت ہے۔
مزیدپڑھیں: تباہ شدہ غزہ کی تعمیر نو میںکتنے سال لگیںگے؟
اس سے قبل گزشتہ روز ہی اسرائیل نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک سکول کو نشانہ بنایا جس میں 30 سے زائد افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔
جنگ بندی کی طرف کی جانے والی کوششوں پر فی الحال کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ امریکہ ، مصر اور قطر کئی ماہ سے اس پر مصروف عمل ہیں۔ چند روز قبل بائیڈن انتظامیہ نے ایک جنگ بندی معاہدہ پیش بھی کیا تھا جسے اسرائیل نے تسلیم کرنے سے انکارکر دیا تھا۔
دوسری جانب قطر کا کہنا ہے کہ جنگ بندی اور قیدیوں کی تبادلے اور آزادی سے متعلق اب تک حماس کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
دنیا کی مجرمانہ خاموشی:
غزہ میں انسانی المیہ جنم لینے کے باوجود بھی دنیا اب تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے پناہ گزین کیمپوں پر حملے انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے بھی خلاف ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ جیسی تنظیمیں بھی صرف معاملےپر افسوس کے اظہار تک محدود ہیں۔
دوسری جانب مسلم امہ بھی اسرائیلی مظالم کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اپنے فلسطینی بھائیوں کا اس طرح سے دست و بازو بننے میں ناکام ہے جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔
انسانی حقوق کی چیمپئن بننے کے دعوے کرنے والی امریکی حکومت اسرائیل کو جنگ بندی کی طرف مائل کرنے کی بجائے اس کی سہولت کاری میں مصروف ہے۔ یہاں امریکہ کی وہ طاقت نظر نہیں آرہی جو وہ ترقی پذیر ممالک سے اپنی بات منوانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔