اہم خبریںپاکستان

الیکشن 2024 کے 14 ماہ، انتخابی دھاندلی کی کتنی پٹیشن پر فیصلہ ہو چکا ؟

الیکشن کے بعد امیدواروں کے پاس الیکشن ٹربیونل ہی واحد راستہ ہوتا ہے جہاں وہ انتخابی نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔

الیکشن 2024 کو تقریباً 14 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس الیکشن کی ساکھ پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ الیکشن کے بعد امیدواروں کے پاس الیکشن ٹربیونل ہی واحد راستہ ہوتا ہے جہاں وہ انتخابی نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔

گزشتہ سال کے انتخابات  کے بعد الیکشن  ٹربیونلز (Election Tribunals )  بنائے گئے تو اس سطح پر بھی کئی رکاوٹیں ڈالیں گیں۔

کبھی حکومت نے کسی ٹربیونل کو کام سے روکنے کیلئے ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا تو کبھی معاملات ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر حکومت نے سرے سے الیکشن ٹربیونل کے جج ہی تبدیل کر کے ریٹائرڈ ججز کو ٹربیونلز میں تعینات کر دیا۔
ان تمام تر معاملات کے باوجود انتخابی عذرداریوں کے گنتی کے کیسز ہی نمٹ سکے۔

انتخابی دھاندلی کے کتنے کیسز نمٹائے گئے؟

فافن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 14 ماہ گزر جانے کے بعد بھی انتخابی عذرداریوں کی تقریباً ایک تہائی کیسز کو ہی نمٹایا جاسکا ہے جبکہ دو تہائی کیسز کو ابھی نمٹایا جانا باقی ہے۔

فافن کے مطابق انتخابی دھاندلی کے تقریباً 372 معاملات کو ٹربیونلز میں چیلنج کیا گیا۔

 

مزید پڑھیں: الیکشن ٹربیونلز میں زیر التواء دھاندلی کیسز پر عمران خان نے اہم پتا کھیل دیا

ان چیلنج کرنے والوں میں سب سے زیادہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار تھے جن کی کل تعداد 55 فیصد رہی۔ ن لیگ کی جانب سے 13 فیصد ، پیپلز پارٹی کی جانب سے 8 فیصد، جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے 6 فیصد جبکہ کسی بھی جماعت کی حمایت نہ رکھنے والے 7 فیصد امیدواروں نے انتخابی نتائج چیلنج کر رکھے ہیں۔

فافن کے مطابق یکم فروری 2025 سے 20 اپریل 2025 تک تقریباً 24 الیکشن دھاندلی کے کیسز پر فیصلہ کیا گیا۔ ان 24 کیسز کے ساتھ کل نمٹائے جانے والے کیسز کی تعداد 136 تک پہنچ گئی جو کہ کل 372 پٹیشن کا 37 فیصد بنتا ہے۔

الیکشن دھاندلی کے نمٹائے گئے ان 24 کیسز میں 21 پٹیشن پنجاب سے تھیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے 2 جبکہ سندھ میں صرف ایک پٹیشن پر فیصلہ ہو سکا۔ خیبرپختونخوا میں کوئی بھی پٹیشن نتیجے تک نہ پہنچ سکی۔

اس دورانیے میں خیبرپختونخوا کے دو ٹربیونلز، پنجاب کا ایک ٹربیونل اور اسلام آباد کے تینوں حلقوں کا واحد الیکشن ٹربیونل بھی مکمل طور پر غیر فعال رہا ہے۔

الیکشن ٹربیونلز میں ان زیر سماعت کیسز کا ایک سال بعد فیصلہ نہ ہونے نے ایک بار پھر پاکستان میں انتخابی عمل پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کے بعد امیدواروں کے پاس واحد حل یہی ٹربیونلز ہیں لیکن اب ان کو بھی حکومتوں نے مداخلت کے ذریعے غیر فعال بنا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button