
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالت میں سویلین ٹرائل کو درست قرار دے دیا ہے۔
آئینی بینچ نے 2-5 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا ۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن رضوی، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس مسرت ہلالی نے اکثریتی فیصلہ دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی ون اور شق (4) 59 کو بھی بحال کر دیا۔
سپریم کورٹ نے اپیل کا حق دینے سے متعلق معاملہ حکومت کو بھجواتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ حکومت ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کریں۔
اس فیصلے کو جہاں قانونی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہیں تنقید کرنے والے اس فیصلے کی ٹائمنگ پر تنقید کر رہے ہیں۔
وکلاء برداری کا رد عمل:
عدالتی فیصلے پر رائے دیتے ہوئے سوشل ایکٹوسٹ اور وکیل سیاسی رہنما جبران ناصر نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کی اجازت دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ کل رات ہمیں ایک بیرونی دشمن کی طرف سے بیرونی خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ آج صبح ہمیں ہماری اپنی سپریم کورٹ کی طرف سے ہماری جمہوریت اور آزادی کے لیے اندرونی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
وکیل رہنما کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آج مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے ہمارے بنیادی حق کے نفی کر دی ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھ اکہ جب کہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں اس بحران اور جنگ کے وقت کے ہسٹیریا کے درمیان ان آئینی حقوق اور آزادیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جن کے تحفظ کے لیے ہم لڑ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان معاف کریں ، ہم نہیں کریں گے؛ صاحبزادہ حامد رضا
جبران ناصر نے مزید کہا کہ 26 ویں ترمیم ہو، فوجی عدالتیں ہوں، جبری گمشدگیاں ہوں، دریائے سندھ پر نہریں بنانا ہوں یا الیکشن چوری کرنا ہوں، ہمیں مزاحمت جاری رکھنی چاہیے۔ آزادی اور خودمختاری شہریوں کے لیے عزت کی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے ہے جہاں ان کے حقوق کا تقدس ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل رہنما اور سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے لکھا کہ ہر دن پچھلے دن سے زیادہ تاریک ہے۔
آج دشمن کو نقصان پہنچانے پر فخر اور اتحاد کا دن ہونا چاہیے تھا۔ فخر باقی ہے لیکن عام شہریوں کے فوجی عدالتوں کے ٹرائل کو برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان میں انسانی حقوق کی مزید تباہی پر گہرے دکھ کے ساتھ گھل مل گیا ہے۔
وکیل رہنما ابوذر سلمان نیازی کا کہنا تھا کہ واضح رہے کہ شہریوں کا فوجی ٹرائل غیر آئینی ہے، آرٹیکل 175(3) کی خلاف ورزی ہے جو کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ ہونا چاہیے۔
آرمی سے لے کر ایگزیکٹو آفیسر جج کا کردار نہیں سنبھال سکتا، یہ آرٹیکل 175(3) کے تحت ضمانت شدہ اختیارات کی علیحدگی کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔
صحافیوں کا رد وعمل :
صحافی شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ جہاں قوم سے کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف اس جنگ میں متحد ہو جائیں، سپریم کورٹ خاموشی سے اپنے فوجی عدالت کے فیصلے سے شہریوں کے بنیادی حقوق چھین لیتی ہے۔
صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ ایک 9 مئی ہوا تھا وہ بھی بڑا افسوسناک ٓ واقعہ تھا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور ایک آج سپریم کورٹ نے 7 مئی کر دیا ہے یہ بھی بنتا نہیں تھا جو کر دیا گیا تاریخ ہمیشہ کے لئے یاد رکھے گی۔