عادل خان بازئی

بڑے صاحب کا خط آگیا تو ڈی سیٹ کردو، عادل بازئی کیس کا فیصلہ کالعدم

سپریم کورٹ نے عادل بازئی کی این اے 262 کی نشست بحال کر دی، الیکشن کمیشن کا 12 نومبر کا فیصلہ کالعدم قرار۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کو الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ ن مطمئن نا کر سکے کہ کیسے عادل بازئی مسلم لیگ ن سے وابستہ تھے۔
سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیئے ۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی؟ جسٹس عقیل عباسی بولے بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کر دو یہ نہیں ہو سکتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے تھا۔
صحافی بشارت راجہ کے مطابق عادل بازئی کیس میں ڈی جی لاء الیکشن کمیشن ارشد خان عدالت کے تابڑ توڑ سوالات کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے کھڑا رہے۔ عدالت پوچھتی ہے کہ دو بیان حلفی آپ کے پاس ہیں درخواست گزار کہتا ہے کہ ایک میرا ہے اور دوسرا میرا نہیں آپ تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مجھے پسند ہے اس بناء پر فیصلہ کریں گے۔

مزید پڑھیں:ڈی سیٹ ہونے والے عادل خان بازئی کا کیس جسٹس منصور علی شاہ کے کورٹ میں

صحافی ثاقب بشیر کاکہنا تھا کہ آج الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بہت مس کیا ہو گا وہ ہوتے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے دلائل بھی دے لیتے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مقدس بھی کہہ دیتے بے شک غیر قانونی ہی ہے۔
صحافی احمد وڑائچ نے سوال اٹھایا کہ عادل بازئی کی طرف سے نواز لیگ نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا، سپریم کورٹ میں یہ ثابت ہو گیا۔ شمولیت پر ایک بیان حلفی پارٹی صدر (نواز شریف) کو بھی دینا ہوتا ہے، کیا دوسرے رکن کا جھوٹا بیان حلفی دینے کے بعد نواز شریف اسمبلی رکن رہ سکتے ہیں؟ یا رہنا چاہیے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں