
چائلڈ سٹار عمر شاہ کو آہوں اور سسکیوں میں آبائی گاؤں ڈیرہ اسماعیل خان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔ لیکن دل ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
ننھے سٹار کے گھر تعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ہر طرف یہی موضوع زیر بحث ہے۔
عمر شاہ کی اچانک وفات کی خبر سب کیلئے صدمہ تھی تو وہیں لوگ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ موت کی وجہ کیا بنی؟
خاندانی ذرائع اور بعد ازاں عمر شاہ کے گھرانے کے قریبی سمجھے جانے والے صحافی وسیم بادامی کی جانب سے بتایا گیا کہ ‘ایسپیریشن’ موت کی وجہ بنی۔
یعنی کہ قے (الٹی) سانس کی نالی میں چلی گئی اور وہاں سے پھیپھڑوں سے ہوتے ہوئے نظامِ تنفس کو بند کر دیا۔ بعدازاں حرکت قلب بند ہونے سے وفات واقع ہوئی۔
ننھے عمر کی وفات صرف ایک سنسنی خیز خبر نہ تھی۔ ایسے واقعات چھوٹے بچوں کے والدین کیلئے لمحہ فکریہ ہوتے ہیں۔
ایسے واقعات والدین کو متنبہ کر دیتے ہیں تا کہ آئندہ کوئی پھول اس طرح نہ مرجھا جائے۔
افسوس کے سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا عمر شاہ ہی اس موضوع پر آگاہی کی وجہ بن گیا۔
ایسپیریشن کیا ہے ؟ اس سے متاثرہ بچے کیلئے ہنگامی طبی امداد کیا ہوگی؟
ایسپیریشن کیا ہے؟
کھانے کو کوئی چیز، کوئی لیکوڈ، یا قے (الٹی) اگر غلطی سے سانس کی نالی یا پھیپھڑوں میں چلی جائے تو ایسپیریشن کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
ایسا ہونے سے سانس کی نالی بند ہو جاتے ہے اور سانس میں تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔
اس کی ایک خطرناک شکل ایسپیریشن نمونیا ہوتی ہے۔ یہ حالت الٹی یا دیگر مواد جو سانس کی نالی سے داخل ہوا اس میں موجود بیکٹریا پھیپھڑوں میں جانے سے پیدا ہوتی ہے۔
اس کے بعد پیچیدگیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اگر فوراً طبعی امداد نہ ملے تو متاثرہ شخص کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
ایسی ہنگامی صورتحال پیدا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
عمر شاہ کے معاملےپر ایک ویڈیو میں ڈاکٹر عفان قیصر نے والدین کو ہدایت کی کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو بچے کو بائیں کروٹ لٹا دیں تا کہ الٹی سانس کی نالی میں نہ جائے۔
اس کے ساتھ سی پی آر بھی کریں تا کہ بچے کی سانس بحال رہے۔ سی پی آر ایسا عمل ہے جسے آرام سے گھر میں کیا جاسکتا ہے جب تک کہ ابتدائی طبی امداد نہ ملی۔
مزید پڑھیں: دورہ پڑنے پر سی پی آر کر کے مریض کی جان کیسے بچائی جا سکتی ہے؟
اس کے بعد ہسپتال پہنچنے پر طبی عملہ ایمرجنسی میں اس کیس کو ڈیل کر کے بچے کی جان بچا سکتا ہے ۔
اس میں بچے کو سانس کی نالی کے ذریعے مصنوعی طور پر آکسیجن مہیا کرنے جیسے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
عمر شاہ کی حادثاتی موت؛ والدین کیلئے کیا سبق ہے؟
ڈاکٹر عفان قیصر نے والدین سے گزارش کی کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو اپنے پاس سلائیں۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یا کسی ذمہ دار بندے (دادا دادی ) کے پاس سلایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ سہولت میسر نہ ہو تو بچوں کے کمرے میں کیمرہ ضرور لگایا جاناچاہیے۔
بچوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اکثر رات کے اوقات میں قے آتی رہتی ہے۔ ایسی صورت میں بچوں کو رات دیر گئے بہت زیادہ کھلانا پلانا نہیں چاہیے۔
اکثر اوقات بچے بیڈ شیٹ خراب ہونے یا کارپٹ گندی ہونے اور اس کے بعد والدہ کے ڈانٹنے کے ڈر سے الٹی دبا لیتے ہیں۔
یہ خطرناک عمل ہوسکتا ہے، اسلیئے بچوں کو سمجھائیں کہ کارپٹ، فرش، بیڈ شیٹ کا گندا ہونا ان کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔
عموماً پبلک مقامات سکول ، گاڑی وغیرہ میں بچوں کو الٹی کرنےپر اس قدر نفرت کا شکار بنایا جاتا ہے کہ وہ ایسے مقامات پر الٹی کرنے کی بجائے اسے دبا لینا بہتر سمجھتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں یاد رکھا جائے کہ بڑا آدمی متلی ہونے کی صورت میں حفاظتی انتظامات کر سکتا ہے۔ لیکن بچوں کو اتنا سخت ڈانٹنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔
اس کیلئے بچوں کی تربیت کی جاسکتی ہے کہ وہ طبیعت خراب ہونے کی صورت میں فوراً والدین، سکول ہونے کی صورت میں اپنے اساتذہ کو آگاہ کریں۔
اس دوران اتنے لمحات ضرور مل جاتے ہیں کہ بندہ واش بیسن یا فلش تک پہنچ کر الٹی باہر نکال سکے۔
اختتامیہ:
عمر شاہ کا کیس والدین کو ایک بار پھر متحرک کر گیا ہے کہ بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔
تعلیم، میڈیکل آگاہی اور بچوں ک ایسے معاملات پر تربیت دینے سے مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔