
خیبر پختونخوا کے پسماندہ پہاڑی خطوں میں رہنے والے زرعی خاندان سال بھر اپنی بقا کے لیے زیادہ تر موسمی پھلوں کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں ۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات نے خیبر پختونخوا میں بارشوں کے نظام کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے جس کے باعثبہت سے غریب کسان جو موسمی پھلوںپر اپنی آمدن کا انحصار رکھتے ہیں اب موسمیاتی آفتوںکے پیش نظر اپنی فصل تباہ کر بیٹھتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اب ایسے موسم سے ظاہر ہوتے ہیں جب سٹرابیری کی نقد آور فصل، جو چارسدہ کی خاصیت ہے، کاٹی جاتی ہے۔سٹرابیری کی فصل، جو اکتوبر اور نومبر میں لگائی جاتی ہے، پک کر اپریل تک کٹائی کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے، اس سال سٹرابیری کی پیداوار کو غیرمعمولی بارشوں کی وجہ سے خاصا دھچکا لگا، جس سے پھلوں کی تقریباً 80 فیصد فصل تباہ ہوگئی، جس سے کاشتکاروں کی حالت تشویشناک ہوگئی کیونکہ ان کے پاس صرف ناقص معیار کی اسٹرابیری رہ گئی تھی جو صرف کم قیمت پر فروخت کی جاسکتی تھی۔ یوںصرف کسان نہیں عوام کیلئے بھی یہ بری خبر ہے کیونکہ وہ بھی اس سال سٹرا بیری کا لطف نہیںاٹھا پائیںگے۔
مزید پڑھیں:صارفین وٹس ایپ پر برہم کیوں ہیں؟
ایسے ہی ایک کسان چارسدہ سے تعلق رکھنے والے مطاہر شاہ تھے، جو گزشتہ 17 سالوں سے سٹرابیری کی نقد آور فصل کاشت کر رہے ہیں۔ اس سال کی زیادہ بارشوں نے ان کا آٹھ کنال کا سٹرابیری باغ کھنڈرات کی حالت میں چھوڑ دیا ہے۔ "فصل کے موسم کے عروج کے دوران، بے موسم کی بارشوں کی وجہ سے انکا کھیت بھر گیا۔ تقریباً ایک ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلی اسٹرابیری بارشوں سے بری طرح متاثر ہوئی جس کے نتیجے میں پھل چھوٹے اور زیادہ خراب ہوئے۔مطاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری سٹرابیری عام طور پر 250 سے 300 روپے فی کلو میں فروخت ہوتی ہے لیکن اس سال ہمیں انہیں محض 100 روپے میں بیچنا پڑا۔
سٹرابیری کا کاروبار کرنے والےتاجر، اختر باچا ن کاکہنا ہے کہ ایک ایکڑ کھیت سے 400 کلو گرام اسٹرابیری نکلتی ہے۔ بدقسمتی سے اس سال ژالہ باری اور بارش کے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ اس نے اسٹرابیری کے کاروبار سے وابستہ مقامی لوگوں کی روزانہ کی کمائی پر نمایاں طور پر اثر ڈالا ہے۔ یوں اس سال پاکستانی سٹرا بیری سے لطف نہیںاٹھا پائیںگے۔