
پاکستان میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کیلئے 2016 میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ پاس کیا گیا۔ اس وقت یہ قانون سائبر کرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔
رواں سال کے آغاز میں اس میں تفصیلی ترامیم کی گئیں جس کے بعد سے پیکا قانون پاکستان کے سیاسی و صحافتی منظر نامے پر زیر بحث آنے والے بڑے موضوعات میں سے ایک بن چکا ہے۔
جہاں حکومت اس کے اصلاحی افادیت بیان کرتے نہیں تھکتی، ناقدین اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن، بنیادی انسانی حقوق پر کاری ضرب اور صحافتی پیشہ وارنہ فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ قرار دے رہی ہے۔
آئیے حکومت کی جانب سے ترمیم شدہ پیکا قانون کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پیکا ایکٹ میں کیا ترامیم کی گئی ہیں ، سوشل میڈیا پر پیکا قانون کیسے لاگو ہوتا ہے اور اس قانون کے تحت کیا سزا ممکن ہے۔
پیکا ایکٹ 2016 کیا تھا اور اس میں کیا ترامیم کی گئی ہیں؟
پیکا ایکٹ 2016 پاکستان میں ڈیجیٹل جرائم کی روک تھام کیلئے پہلی جامع کوشش تھی جس میں الیکٹرانک فراڈ، ڈیٹا چوری اور آن لائن ہراسانی سمیت دیگر جرائم پر کارروائی سے متعلق قوانین شامل تھے۔
اس قانون میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کو تمام تر اختیارات تفویض کئے گئے تھے۔
تاہم جیسے جیسے سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا یہ کوشش محسوس کی جانے لگی کہ اب اس قانون میں تبدیلی کی جائے۔
یوں رواں سال جنوری میں اس میں ترامیم کے بعد پیکا ترامیمی قانون نافذ کر دیا گیا۔
الزام تراشی پر کارروائی کا قانون:
کسی بھی شخص بارے ایسی کوئی خبر یا معلومات جس سے اس شخص کی شہرت یا ساکھ کو نقصان پہنچے اس پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
نظریہ پاکستان، ریاستی اداروں، پارلیمنٹ، جوڈیشری،مسلح افواج سمیت کسی بھی شخص کی شہرت سے متعلق فیک انفارمیشن یا ہتک آمیز مواد شیئر کرنے پر قانون حرکت میں آئے گا۔
نئی ریگولیٹری، تحقیقاتی اتھارٹیز اور ٹربیونلز کا قیام:
قانون میں ترامیم کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی آے ) کی جگہ نئی سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(SMPRA) کا قیام عمل میں لایا گیاہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم کی جگہ اب نیشنل سائبر کرائم ایونسٹی کیشن ایجنسی (NCCIA) پیکا قانون کے دائرہ کار میں آنے والے کیسز کی تحقیقات کرے گی۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل اور سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل کا قیام بھی نئے ترامیم کے زمرے میں آتا ہے۔
پیکا قوانین کے تحت سزا:
قوانین میں سب سے متنازعہ تبدیلی نئی دفعہ 26 A کا اضافہ ہے۔ اس دفعہ کے تحت جو شخص بھی کسی کے بارے میں ایسی فیک انفارمیشن شیئر کرے گا جس سے معاشرے میں بے چینی اور عدم استحکام پھیلنے کا خدشہ ہو تو ایسے شخص کو تین سال قید، 20 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
اس کے علاقہ نئی دفعات کے تحت اب جرم میں معاونت یا اعانت کے تحت ڈیجیٹل جرائم کو قابل گرفت اور ناقابل ضمانت جرائم بنا دیا گیا ہے۔
ان تبدیلیوں سے ریاست کی طاقت میں مزید اضافہ جب کے ملزمان کو حاصل قانونی تحفظ میں مزید کمی ہو گئی ہے۔
پیکا قانون اور صحافت:
پیکا قانون سے سب سے متاثرہ شعبہ صحافت کا ہے جس نے آزادی صحافت پر قدغن، تحقیقاتی صحافت پر سینسرشپ اور حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کیلئے کام کو مشکل اور کچھ حالات میں ناممکن بھی بنا دیا ہے۔
نئی ترامیم نے صحافیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے کیونکہ اب تحقیقاتی رپورٹس اور ایسی خفیہ معلومات سامنے لانے پر جس میں عوام کا فائدہ ہو، تحقیقاتی صحافی کو ہتک عزت اور شہرت کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
سخت سزاؤں پر عوامی مفادمیں رپورٹنگ پر کیرئیر اور جان داؤ پر لگانے کی مجبوریوں نے صحافیوں کو ذاتی سینر شپ پر مجبور کر دیا ہے۔
میڈیا چینلز کو ریاستی ٹیلی ویژن جیسا درجہ حاصل ہو گیا ہے، جس میں جو حکومت کے حق میں جائے گا، وہ مراعات پائے گاجبکہ دیگر پابندی کا سامنا کریں گے۔
پیکا قانون کے مقدمات:
پیکا قانون کے تحت درج ہونے والے مقدمات کا زیادہ نشانہ صحافی ہی بنے ہیں۔ ان صحافیوں میں اکثریت وہ لوگ ہیں جن کا جرم حکومت پر تنقید ہوتا ہے۔
مین سٹریم میڈیا پر تو ایسے خیالات کے اظہار کی گنجائش نہیں رہتی ، ایسے تمام لوگ سوشل میڈیا پر پیکا قانون کی زد میں آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پیکا قانون:
صحافی فرحان ملک کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘رفتار’ پر ریاستی اداروں کے خلاف کانٹینٹ بنانے پر پیکا ایکٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
صحافی عبدالوحید مراد کو ان کے گھر سے اغواء کیا گیا اور بعدازاں خبر سامنے آئی کے ان پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔
وحید مراد نے سردار اختر مینگل کی ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس پر انہیں کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ حالانکہ یہ مواد انکا اپنا تخلیق کردہ نہ تھا۔
صحافی خالد جمیل کو گزشتہ دنوں پیکا کے مقدمہ میں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔
ایسی ہی لمبی فہرست ہے جو اس قانون کی زد میں آئی ہے۔ گرفتاریوں سے ہٹ کر بھی ایف آئی اے کے نوٹسز کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کیا جانا معمول بن چکا ہے۔
کارروائیوں کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ تھوڑا عرصہ قبل حکومت پر تنقید کرنے والے 20 سے زائد صحافیوں جن میں اسد علی طور، مطیع اللہ جان، آفتاب اقبال، عمران ریاض خان جیسے بڑے نام شامل تھے ان کے یوٹیوب چینلز کو بند کرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔
اب عدالت سے ریلیف مل چکا لیکن حکومتی عزائم ایک بار کھل کر سامنے آ گئے تھے۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے اپنے ناقد صحافیوں کے نوکریوں سے نکلوائے جانے اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمند کرانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پیکا قانون پر تنقید کیوں؟
حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو مشکوک نظروں سے اس لئے دیکھا جاتا ہے کیونکہ حکومت اسے خو د ہی مشکوک انداز میں استعمال کرتی ہے۔
اپنے ناقد صحافیوں، سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے والی حکومت کے اپنے قریبی صحافی یا خود حکومتی وزراء جب غلط معلومات پھیلاتے ہیں تب قانون حرکت میں نہیں آتا۔
دوسری جانب پہلے گرفتاری اور اس کے بعد کیس بنائے جانے کے حالیہ حکومتی رواج نے بھی اس قانون پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
حکومت اپنے ہر عمل سے اس قانون کو اپنی مخالف آواز کو دبانے کے آلے کے طور پر استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون تنقید کا شکار اور عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہے۔س