آرٹیکلزاویہ

ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاء الحق کو "میرے بندر جنرل ” کہہ کر کیوں بلاتے؟

ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے جنرل ضیاء الحق کا بھٹو سے رقابت کا سلسلہ بہت عرصے سے چلا آرہا تھا۔ اپنے عہدے کے ابتدائی ایام میں ضیاء الحق وزیر اعظم بھٹو کیلئے تفریح کا سامان ہوا کرتے تھے۔نہ صرف بھٹو خود بلکہ ان کا خاندان بھی جنرل ضیاء الحق کی شکل و ہیت کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار اور زندگی کا سورج اسی جنرل ضیاء کے ہاتھوں ختم ہوا جس کی شکل و ہیت کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

بھٹو جنرل ضیاء الحق کا مذاق اڑانے کا موقع نہ جانے دیتے:‌

ضیاء الحق کی لمبی مونچھوں کی وجہ سے ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں مائی مانکی یعنی کہ میرا بندر کہہ کر مخاطب کیا۔غصے میں آنے کے برعکس ضیاء الحق نے بھٹو کی اس بات کو ذرا بھی برا نہ مانا اور ہنس دیئے ۔
اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی تو جیسے یہ عادت ہی ہو گئی وہ آرمی چیف جنرل ضیاء کو بلانے کیلئے اکثر محفل میں پوچھ لیا کرتے تھے کہ میرا بندر جنرل کہاں ہے؟پھر اس پاس دیکھتے اور کہتے ادھر آؤ بندر۔ جنرل ضیاء ان کی اس پکار پر دوڑے چلے آتے تھے۔
وزیر اعظم بھٹو جنرل ضیاء کے دانتوں کا بھی مذاق اڑاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ کتنے مضحکہ خیز ہیں اور مزاحیہ نظر آتے ہیں۔
بھٹو خاندان کے دیگر افراد بھی آرمی چیف پر طعنہ زنی سے بعض نہ آتے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک بار لکھا کہ جب میں نے پہلی بار جنرل ضیاء کو دیکھا تو وہ مجھے کوئی متاثر کن فوجی کمانڈر کی بجائے کسی کارٹون فلم کی ولن جیسے دکھائی دیئے۔
تاریخ میں ایک مشہور واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک بار جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو آتا دیکھ کر گھبراہٹ میں جلتی ہوئی سگریٹ کو جیب میں ڈال دیا۔لیکن جب کوٹ کی جیب سے دھواں نکلنے لگا تو جنرل ضیاء بوکھلا گئے اور بڑی مشکل سے سگریٹ بھجائی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی گھبراہٹ دیکھی اور اپنے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ ایسا بزدل جنرل؟ یہ میدان جنگ میں کیا کرے گا۔

کیا واقعی میں‌جنرل ضیاء اتنے بزدل تھے؟

سچ بات یہ تھی کہ جنرل ضیاء کو ذوالفقار علی بھٹو جتنا بزدل سمجھ رہے تھے وہ حقیقت میں اتنے بزدل ہرگز نہ تھے۔ نہ ہی ضیاء الحق ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی بے عزتی اتنی جلدی بھول جاتے۔
یوں اس آپس کی رقابت نے ایسا روپ اپنایا کہ پہلے مقبول ترین لیڈر بھٹو مارشل لاء کے ہاتھوں اپنی حکومت گنوا بیٹھے اور پھر اسی جنرل جسے وہ کبھی میرے بندر جنرل کہہ کر بلایا کرتے تھے کے ہاتھوں تختہ دار پر بھی لٹک گئے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button