
کسی شاعر کا یہ شعر اس وقت پاکستان کے حالات پر بالکل صادر آتا ہے اور اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ
نکلو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملےگا
پی ٹی آئی کے ڈی چوک احتجاج پر کئے گئے طاقت کے استعمال کی کئی افسوسناک ویڈیوز اور تصاویر سامنے آرہی ہیں۔ لیکن اس سے افسوسناک یہ بحث ہے جس میں حکومت اور کئی حکومتی صحافی مصروف ہیں اور وہ یہ کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔
واقعہ کی دیگر تفصیلات اس وقت موضوع بحث نہیں بلکہ اس وقت جائے وقوعہ یعنی کہ ڈی چوک وجہ بحث ہے۔ اور یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈی چوک ایسا کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ہر وقت ڈی چوک پر دھرنا یا احتجاج کرتی ہیں۔
اس کی وجہ یہاں موجود عمارتیں ہیں جو کہ بہت اہمیت کی حامل ہیں اور ان کی حفاظت حکومت وقت کی حفاظت ہوتی ہے وگرنہ ملکی نظام دھرم بھرم ہو جائے۔
سب سے پہلے ڈی چوک کے مقام پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی بلڈنگز ہیں۔ یہاں عام لوگوں خصوصاً مظاہرین کی پیش قدمی اور غم و غصہ کسی نقصان کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ عوام کاغصہ تو ہوتا ہی سیاستدانوں پر ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم ہاؤس دائرہ اختیار میں ہے۔
مزید پڑھیں: ڈی چوک کے نامراد گدھ
اس کے علاوہ ڈپلومیٹک انکلیو بھی اسی مقام پر ہے جو کہ تمام غیر ملکی ایمبیسیزکا گڑھ ہے۔ یہ حساس عمارتیں ہیں جن کی حفاظت بہت ضروری ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ صدر ہاؤس ، اہم وزارتوں کے دفاتر، وفاقی سیکرٹریٹ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بلڈنگ اور انٹیلیجنس بیورو کی عمارت شامل ہے۔
ان تمام اہم اداروں کی موجودگی کی وجہ سے مظاہرین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ احسن طریقہ سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ جبکہ حکومت کسی بھی نقصان کا خطرہ مول نہیں لے سکتی اس لئےاکثر ڈی چوک احتجاج کی اجازت نہیں ملتی اور اگر کوئی زبردستی کرے تو حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے۔