
کئی ماہ کی مسلسل محنت کے بعد بالاآخر حکومت اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد اب جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ ہوں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں 5-7 کی تناسب سے فیصلہ کیا گیا جس کے بعد جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
دیگر اراکین میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، شبلی فراز اور عمر ایوب خان نے آئینی بینچ کے سربراہ کے طور پر جسٹس امین الدین خان کی مخالفت کی۔
تاہم جسٹس امین الدین اپنا ووٹ خود کو ہی دے کر میچ ٹائی ہونے کی بجائے 5-7 کی تناسب سے فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا۔
مزید پڑھیں:عجلت میںپاس کی گئی قانون سازی ؛ پیپلز پارٹی کے میاںرضا ربانی بھی مخالف
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی بعد یہ پہلا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس تھا۔ موجودہ آئینی بینچ 60 روز کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔
صحافی عمر دراز گوندل نے آئینی بینچ کی تشکیل کے حوالے سے لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کے اعلامیے کے مطابق آئینی بینچ 2 مہینے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
عمر دراز گوندل کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے صحافی احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ 2ماہ میں مخصوص نشستوں، ملٹری کورٹس فیصلے کی نظرثانی ہو جائے گی، 26ویں ترمیم کا فیصلہ آ جائے گا۔ باقی آئینی کیسز کے نام پر بچتا کیا ہے؟
پی ٹی آئی وکیل رہنما سعید احمد بھالی نےلکھا کہ جسٹس یحیٰ آفریدی کے پاس وقت بھی تھا اور اختیار بھی کہ اگر وہ پریکٹس ، پروسیجر کمیٹی کے اکثریتی فیصلے پر عمل کرکے چھبیسویں آئینی ترمیم کی پٹیشن کو فُل کورٹ میں مقرر کردیتا تو سپریم کورٹ کی ساکھ اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بحال کیا جاسکتا تھا لیکن ثابت ہوگیا کہ یہ سب فِکس میچ چل رہا تھا اور خوبصورتی سے جعلی حکومت کو راستہ دیا گیا اور جسٹس آفریدی نے اپنی خوشنودی سے چیف جسٹس سے چیف مجسٹریٹ بنناقبول کیا۔