
نئے چیف جسٹس کی تقرری کا معاملہ حل ہونے کے بعد بھی جسٹس منصور علی شاہ حکومت کے حواس سے نہیں اتر پائے ہیں اور اب حکومت کیلئے ایک اور پریشانی کھڑی ہوگئی ہے اور وہ ہے جسٹس منصورکو آئینی بینچ کا سربراہ بننے سے روکنا۔ حکومتی ترجمان خصوصاراناثنا ء اللہ اور بیرسٹر عقیل ملک بھی گزشتہ رات ٹی وی پروگرامز میںاس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تذبذب کا شکار پائے گئے۔رانا ثناء اللہ نے تو برملاء اس خواہش کا اظہار بھی کردیا کہ جسٹس منصور علی شاہ آئینی بینچ کی سربراہی سے معذرت کرلیں۔
صحافی عیسیٰ نقوی کا کہنا ہے کہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سے جان چھڑانا چاہتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ وہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد استعفیٰ دے دیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔
اس کے بعد نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کر کے حکومت کو سرپرائز دیا۔
عیسیٰ نقوی کہتے ہیں کہ قانون میں ایسی کوئی قدغن نہیں ہے کہ چیف جسٹس کے بعد سینئر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر آئینی بینچ یا جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں بن سکتے۔
یاد رہے کہ نئی آئینی ترمیم کے بعد اب سپریم کورٹ سے زیادہ سیاستدانوں کی نظریں آئینی بینچ پر ہوں گی اور دیکھا جائے تو آئینی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے کیونکہ تمام سیاسی معاملات انہوں نے ہی دیکھنا ہیں۔
مزید پڑھیں:ریٹائرمنٹ کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کو نیا عہدہ مل گیا
صحافیوں کا خیال ہے کہ حکومت جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ بنانا چاہتی ہے اور ان کے بعد بقیہ 4 سینئر ججز اس بینچ کے اراکین میں رکھنا چاہتی ہے۔
صحافی بشیر چوہدری کو بھی جسٹس منصور علی شاہ آئینی بیچ کیلئے بہترین چوائس نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ آئینی بینچ کی سربراہی کا فیصلہ جوڈیشل کمیشن نے کرنا ہے جس میں چار جج، تین وکیل، اٹارنی جنرل، وزیر قانون، چار ارکان پارلیمنٹ اور ایک سول سوسائٹی کا نمائندہ ہوگا۔ چار میں سے ایک جج تو پکا پکا حکومتی ہے، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ اور وکیل بھی حکومت کے ساتھ ہوں گے۔ اپوزیشن کے دو نمائندگان اور تین جج ایک طرف ہو سکتے ہیں۔ پانچواں جج یعنی آئینی بینچ کا سربراہ بھی اس کمیشن کا رکن بنے گا لیکن سے سے پہلے اس کا تقرر کرنا ہوگا۔ اب جو اکثریت چاہے گی وہی ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ سب سے بہترین چوائس ہیں۔