بیرسٹر گوہر نے وہ نقطہ ڈھونڈ لیا جو آئینی ترامیم کالعدم کرا دے گا

آئینی ترامیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس ہو چکی ہیں۔ سینیٹ میں حکومت نے آئینی ترمیم کیلئے بی این پی مینگل کے سینیٹرز کی مدد حاصل کی جبکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین مدد کو آئے۔
قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کے دوران پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر نے وہ نقطہ اٹھا دیا جس سے سپریم کورٹ میں آئینی ترامیم کالعدم ہو سکتی ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے اسمبلی میں تقریر کے دوران بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 239 اور نیشنل اسمبلی رول 156(2) کے مطابق آئین میں اس وقت تک ترمیم نہیں ہوسکتی جب تک کہ دونوں ایوان مکمل نہ ہوں۔
اس وقت قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں بھی خالی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں ابھی سینیٹ کا انتخاب ہونا باقی ہے۔
اگرچہ آئینی ترامیم پاس ہو چکیں ہیں لیکن اس کے بعد حکومت کا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ حکومت کے ابھی دو امتحان باقی ہیں۔ پہلا امتحان سپریم کورٹ میں اس معاملے کا چیلنج ہونے کا امتحان اور دوسرا امتحان وکلاء تحریک کے شروع ہونے کا امکان۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک، لیڈ کون کرے گا؟
وکلاء تحریک چلے گی ، کامیاب ہو گی یا نہیں اس بارے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ایک بار وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ آئینی ترامیم سپریم کورٹ میں ضرور چیلنج ہوں گی۔
سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے کے بعد کا منظر نامہ بھی ابھی دھندلا ہے کیونکہ نئے چیف جسٹس کی تعیناتی اور کیا وہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیں گے یا نہیں، یہ بات ابھی کہنا قبل ازوقت ہے۔
اسی طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جانے کے بعد نئے چیف کون ہوں گے یہ معاملہ بھی ایک دو دن میں طے پا جائے گا۔ ممکنہ طور پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام بطور چیف مںظور ہونےکے امکانات ہیں۔