مجوزہ آئینی ترامیم کیا ہیں اور اصلی ڈرافٹ کونسا ہے ، یہ تو شاید حکومت اور وزیر قانون کو بھی معلوم نہ ہو لیکن اب تک آنے والی غیر حتمی معلومات یہ بتاتی ہیں کہ حکومت تین ججز کے پینل میں سی کسی ایک کو چیف جسٹس بنانے کی خواہش مند نظر آتی ہے۔
اگرچہ اس پر متضاد آراء ہیں اور کچھ لوگ 5 ججز کے پینل تک کی بھی بات کر رہے ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگار تین ججز کے پینل کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر تین ججز کے پینل کی بات درست مان لی جائے تو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کبھی حکومت کی منشاء پر پورا نہیں اتریں گے۔ ایسے میں تیسرے سینئر ترین جج جسٹس یحییٰ آفریدی ہیں جن کا نام بطور چیف جسٹس زیر گردش ہے۔
اگر جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس بنتے ہیں تو اسے سارے معاملے میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ان مشکلات کے نشاندہی کرتے ہوئے صحافی ثاقب بشیر لکھتے ہیں کہ وکلا نے کل واضح اعلان کیا ہے جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ کسی کو چیف جسٹس نہیں مانیں گے۔ اب یہ ایک وکلا تحریک چلنے کا پہلا پریشر ہوگا بطور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب پر۔
مزید پڑھیں:نہ قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹنشن ، نہ منصور علی شاہ چیف جسٹس
ثاقب بشیر مزید لکھتے ہیں کہ ترامیم فوری طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج بھی ہوں گے اس کو وہ کیسے ہینڈل کریں گے یہ بھی دیکھنا ہو گا کیا فل کورٹ بنے گی ؟
ثاقب بشیر نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس بننے کے بعد کیا فل کورٹ بلائیں گے ؟ جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آخری ڈیڑھ ماہ نہیں بلائی اور اگر جسٹس یحییٰ آفریدی فل کورٹ میں اقلیت میں رہ گئے تو پھر کیا ہو گا ؟
سینئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ مجوزہ ترامیم کے تناظر میں عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو گی اس تناظر میں سپریم کورٹ کے اندر سے بھی مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر جسٹس منصور علی شاہ نے بار ایسوسی ایشنز سے خطاب شروع کر دئیے وکیل ایکٹیو ہو گئے تو اس کا پریشر بھی آئے گا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہر معاملے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اپنا الگ تھلگ نکتہ نظر رہا ہے کیا اب بھی وہی رکھیں گے ؟