
پاکستان تحریک انصاف اور خصوصاً عمران خان کے کیسز میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کا کنڈکٹ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کیس کو یا تو لمبے عرصے تک فکس نہیں کرتے، اگر فکس کردیں تو لمبی تاریخیں دے دیتے ہیں۔
بات اگر تاریخوں سے نکل کر سماعت تک آ بھی جائے تو وہ ایسا فیصلہ دیتے ہیں جسے بعدازاں چیلنج کر کے ریلیف لینا پڑتا ہے۔ عمران خان بارہا جسٹس عامر فاروق پر عدم اعتماد کر چکے ہیں لیکن وہ کسی طور بینچ سے علیحدہ ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
ایسا ہی ایک کیس گزشتہ روز عمران خان کی بہن نورین نیازی کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا جس میں عمران خان کی بہن کا مؤقف تھا کہ ان کی اور عمران خان کے ذاتی معالج کی عمران خان سے فوراً ملاقات کرائی جائے کیونکہ ان کی صحت سے متعلق تشویشناک خبریں موصول ہورہی ہیں۔
اس کیس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ سنایا جس میں انہوں نے حکم جاری کیئے کہ 17 اگست کو پابندی اٹھنے کے بعد جیل مینوئل کے مطابق ملاقات کرائے جائے۔ یوں عمران خان سے فوراً ملاقات کے درخواست چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بڑی خوبصورتی سے رد کر دی۔
مزید پڑھیں:قاضی صاحب ، 25 اکتوبر انشاء اللہ دن ساڑھے دس بجے
پی ٹی آئی ان کے فیصلوں سے ویسے بھی پریشان نظر آتی ہے لیکن اب معلوم پڑتا ہے کہ ان کی یہ پریشانی ختم ہونا کا وقت آن پہنچا ہے۔
اس حوالے سے صحافی عامر خان نے دعویٰ کیا ہے کہ قاضی صاحب کے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں ایک جج کم ہو جائے گا اور اگر چیف جسٹس منصور علی شاہ بن گئے تو عامر فاروق کو سپریم کورٹ میں بلایا جائے گا ! اور سنیارٹی لسٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس محسن اختر کیانی ہوں گے ۔ پھر عامر فاروق کے ایسے فیصلے بند ہوجائیں گے۔
تاہم یہ فیصلہ بھی نئے چیف جسٹس کی تقرری اور حکومتی اشیر باد سے ممکن ہے۔ یہ بھی بعید نہیں ہےکہ حکومت جتنا زور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے لگا رہی ہے، اتنا زور بعدازاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو سپریم کورٹ میں جانے سے روکنے کیلئے بھی صرف کر دے۔