جسٹس منصور علی شاہ پرکیچڑ اچھالنے والا گروہ متحرک

جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کا وقت قریب آتے ہیں صحافیوں کا ایک طبقہ ان کے خلاف ایکٹو ہو گیا ہے۔ یہ وہ صحافی ہیں جو عدلیہ کے خلاف چلنے والی کمپین کے سرخیل ہوتے ہیں اور اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ روز اس حوالے سے ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب جسٹس منصور علی شاہ ایک نجی ہوٹل میں تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
صحافی عدل سرفراز کے مطابق اس موقع پر وہاں موجود دو صحافی عمران وسیم اور عبد القیوم صدیقی نے ویڈیو بنانا شروع کر دی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا کیونکہ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو تھی۔
اس دوران ظاہر ہے صحافیوں نے ان سے عدالتی معاملات پر گفتگو کرنا تھی اور کورٹ رپورٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ جج صاحبان سے ایسے کیسزسے متعلق بات کی جائے جو عوامی دلچسپی کے ہوں۔ لیکن یہاں جج صاحب کو اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے انہیں ایسی کوئی خبر نہیں دینا ہوتی جو کسی زیر التواء مقدمے پر اثر ڈالے۔
گزشتہ روز بھی صحافی جسٹس منصور علی شاہ سے مخصوص نشستوں کے کیس سمیت دیگر کیسز پر بات کر رہے تھے کہ اسی دوران عبدالقیوم صدیقی نامی صحافی نے پیچھے سے شروع ڈالا کہ کیا جج زیر سماعت مقدمات پر بات کر سکتا ہے؟
مزید پڑھیں: اگر مگر ختم، جسٹس منصور علی شاہ کا واضح پیغام
اس پر جسٹس منصور علی شاہ مسکرائے اور انہوں نے جواب دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ یہ وہ بات نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا میں نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ تحریر کر لیا ہے؟تو میں ان کو جواب دے رہا ہوں کہ نہیں ابھی تحریر نہیں ہوا۔
صحافی عدیل سرفراز کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر بہت افسوس ہوا کہ ان کے ساتھی صحافی نے ان کے جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ گفتگو کے معاملے پر رخنہ ڈالنے کی کوشش کی۔
یاد رہے کہ عبدالقیوم صدیقی کے ساتھ صحافی عمران وسیم وہی صحافی ہیں جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے قریبی تصور ہوتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں اس دن انٹرویو دیا تھا جس دن کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر بات کی تھی۔ حالانکہ یہ بھی ایک زیر سماعت مقدمہ تھا جو کہ الیکشن دھاندلی سے متعلق تھا لیکن اس پر عمران وسیم نے قاضی فائز عیسیٰ کا انٹرویو بھی کیا اور اس حوالے سے بات بھی کی۔