لاہور میں الیکٹرانک ویسٹ تلف کرنے کی مہم کیا ہے؟
ترقی یافتہ ممالک میں الیکڑانک ویسٹ کو تلف کرنے تک بات پہنچ چکی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کی کچرے سے متعلق معاملہ ابھی آگاہی تک بھی نہیں پہنچا۔

ہم اپنی ڈیوائسز کو اب ڈیٹ کر رہے ہیں لیکن اس کی قیمت ہم اپنی ماحول کی آلودگی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔
الیکٹرانک ویسٹ یا ای ویسٹ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پیدا ہونے والا کچرہ ہے اور اس میں ہر روز اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اس کی نت نئی پیداوار، بڑی پیمانے پر تجارت اور اس کو تلف کرنے کی سہولت نہ ہونے کے باعث ماحول کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس کے تلف کرنے تک بات پہنچ چکی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اس قسم کی کچرے سے متعلق معاملہ ابھی آگاہی تک بھی نہیں پہنچا۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 62 ملین ٹن سے زائد الیکٹرانک کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف 22 فیصد تک ہی اکٹھا کر کے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بچ جانے والا کچرہ یا تو خطرناک طریقہ سے جلا دیا جاتا ہے یا گھروں ، گوداموں وغیرہ میں کسی بھی حفاظتی انتظام کے بغیر رکھ دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی الیکٹراک کچرے سے متعلق بحث اور اس کے تلف کرنے/ ری سائیکل کرنے سے متعلق اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایسے میں اس کچرے کو تلف کرنے کیلئے نجی یونیورسٹی کے طلباء نے اس الیکٹرانک فضلے کو تلف کرنے سے متعلق نئی مہم کا آگا کیا ہے جو کہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
الیکٹرانک ویسٹ تلف کرنے کی مہم کیا ہے؟
لاہور میں نجی یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس میں لوگوں کو الیکٹرانک ویسٹ کی بارے میں آگاہی مہیا کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ اس کو ری سائیکل کرنے کیلئے بھی اقدامات کیئے جائیں گے۔
اس مہم میں شامل طلبہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں باقی ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کا نظام موجود ہے لیکن الیکٹرانک ویسٹ ایک خطرناک ویسٹ ہے جس میں ہر سال اضافہ بھی ہورہا ہے۔ لیکن اس کو تلف کرنے پر ناں تو بات ہو رہی ہے اور نہ ہی کام۔
اس لئے طلبہ کے گروپ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ موبائل اور لیپ ٹاپ کی مارکیٹس میں آگاہی مہم چلائیں گے اور دکانوں سے یہ الیکٹرانک فضلہ اکٹھا کرنے کے بعد ایک ری سائیکلنگ کمپنی تک پہنچایا جائے گا۔
یہ کمپنی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس ویسٹ کو صحیح طریقے سے ری سائیکل اور ڈمپ کا جائے۔ طلبہ نے اس مقصد کیلئے کلیکشن بکس لاہور کی بڑی الیکڑانک مارکیٹ میںرکھ دیئے ہیں۔
مزید پڑھیں:خبردار، پہلے رجسٹریشن کرائیں پھر وی پی این چلائیں
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں الیکٹرانک ویسٹ میں سالانہ 26 لاکھ ٹن کا اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں بھی سالانہ 4 لاکھ ٹن الیکٹرانک ویسٹ پیدا ہورہا ہے لیکن اس بارے قوانین اور تلف کرنے کو نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان اس وجہ سے بھی اس ویسٹ سے زیادہ متاثرہ ہے کیونکہ پاکستان میں دوسرے ممالک سے استعمال شدہ سامان بھاری مقدار میں منگوایا جاتا ہے جس میں کچھ سامان قابل استعمال ہوتا ہے اور کچھ نا قابل استعمال۔
اگرچہ اس میں منافع کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور امپورٹ کرنے والوں کو نقصان نہیں ہوتا۔ تاہم خراب مواد ایسے ویسٹ کو جنم دیتا ہے جسے تلف کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اختتامیہ:
یوں تو ہر ملک ہی الیکٹرانک ویسٹ سے متاثر ہے لیکن پاکستان میں اس کی مقدار اور خطرات زائد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنا الیکٹرانک کچرا کوڑیوں کے بھاؤ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو بیچتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ایسا مال ہر سال امپورٹ ہو کر آتا ہے جس سے دکاندار منافع کماتے ہیں اور بقیہ مال بنا کسی حفاظتی انتظامات کے تلف کر دیا جاتا ہے۔
حکومت کو اس پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور بیرون ملک سے غیر قانونی طریقے سے امپورٹ ہو کر آنے والے اس مال کو تلف کرنے کو روکنا چاہیے تا کہ پاکستان کے الیکٹرانک ویسٹ میں کمی واقع ہو سکے۔