
صوبہ پنجاب کے علاقے میانوالی میں خاتون ٹیچر کی جانب سے بچی کی تضحیک کا معاملہ، بچی نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔تفصیلات کے مطابق میانوالی کے علاقے عیدگاہ چوک پر واقعہ ایک نجی سکول کی استانی کا موبائل چوری ہوا جس کا ذمہ دار انہوں نے ایک بچی کو ٹھہرایا۔
بچی خود کشی پر کیوںمجبور ہوئی؟
بچی کے والدین نے ڈسٹرکٹ پریس کلب میانوالی میں صحافیوں کے سامنے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نے ثبوت/ شہادتیں بھی ٹیچر کے سامنے رکھیں کہ انکی بیٹی نے چوری نہیں کی۔
تاہم اس کے باوجود بھی ٹیچر جن کا نام روبینہ بتایا جاتا ہے نے بچی کو اسٹیج پر کھڑا کر کے تضحیک جاری رکھی۔
استانی نے بچی کے ہاتھ میں ایک بینر تھمایا جس پر لکھا تھا کہ میڈم روبینہ کا موبائل چور پکڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیچر نے بچوں سے شیم شیم کے نعرے بھی لگوائے۔
بچی کے والد کا کہنا تھا کہ پریکٹس کم از کم 15 سے 20 منٹ تک جاری رہی جس سے بچی کو اس حد تک پہنچا دیا گیا کہ بچی خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئی۔
مزید پڑھیں:7 سالہ صارم کی موت حادثہ نہ تھی، خوفناک پوسٹ مارٹم رپورٹ
متاثرہ بچی نے زہریلی گولیاں کھائیں جس کے بعد اسے جب ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں بچی نے اپنا بیان بھی لیڈی پولیس کو ریکارڈ کرایا۔
بچی کا اپنی جان لینے سے پہلے لکھا گیا خط:
بچی کے والد نے میڈیا کے سامنے بچی کے ہاتھ سے لکھا خط بھی پیش کر دیا جو اس نے خود کشی سے پہلے لکھا تھا۔
بچی نے اس خط میں ٹیچر کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور انہیںسخت سزا دینے کی مانگ بھی کی۔ بچی کے والد کا کہنا تھا کہ استانی اب اس خط کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور وہ کہتی ہیں کہ یہ بعد میں کاپی کیا گیا ہے۔ والد نے خط کی تحقیقات کرانے کی بھی پیشکش کر دی۔
متاثرہ بچی کے والد نے بتایا کہ پولیس کو درخواست دے دی گئی ہے جس کے بعد کارروائی شروع ہورہی ہے ۔ تاہم انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب اور ڈی پی او میانوالی سے جلد از جلد انصاف ملنے کی اپیل کردی۔