پاکستانسیاست

جب نواز شریف نے نگران وزیر اعلیٰ‌ہوتے ہوئے الیکشن لڑا

سیاست میں آپ اکثر ٹریپ بھی ہوجاتے ہیں ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب جب نواز شریف ایسے ٹریپ ہوئے، انہیں نکلنے کا راستہ بھی دکھا لیکن انہوں نے آںکھیں موند لیں۔

میاں محمد نواز شریف آپکو ہر وقت جمہوریت کا الاپ سناتے دکھائی دیں گے۔ لیکن سال 2024 کے  الیکشن میں ہار کے باوجود سیٹ قبول کرنا ہو یا ماضی کی کوئی کہانی، میاں صاحب کو جب جب جمہوریت کی نفی کا موقع ملتا ہے میاں صاحب دل سے قبول کرتے ہیں۔

میاں صاحب کا سیاسی کیئرئیر کا آغاز ہو (جس میں انہوں نے ضیاء الحق کا کندھا استعمال کیا)  یا ان کے سیاسی کیئرئیر کا ممکنہ اختتام ہو (جس کیلئے انہوں نے 2024 کے الیکشن کے بعد اپنے ووٹ کے عزت دو کے بیانیے کا قربان کیا)، نواز شریف ہمیشہ سے غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار کا کام کرتے آئے ہیں۔

سیاست میں آپ اکثر ٹریپ بھی ہوجاتے ہیں ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب جب نواز شریف ایسے ٹریپ ہوئے، انہیں نکلنے کا راستہ بھی دکھا لیکن انہوں نے آںکھیں موند لیں۔

آئیے ہم میاں صاحب کے کیرئیر کے آغاز کی وہ کہانی سنتے ہیں جو آپ کو سربراہ مسلم لیگ ن کی جمہوریت پسندی کے لبادے کی نفی کرتی دکھائی دے گی۔

جب نواز شریف نگران وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے الیکشن لڑے:

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب نواز شریف نے نگران وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا؟

1985 میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرائے اور اپنی پسند سے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا اور میاں نواز شریف جنرل ضیاء کی پسند سے  پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔

محمد خان جونیجو اس دور میں ایسے ہی تھے جیسے عمران خان دور حکومت میں عثمان بزدار بطور وزیر اعلیٰ پنجاب۔ یعنی کہ جونیجو کی نامزدگی کے وقت بہت سے لوگ ناواقف تھے کہ یہ جونیجو کون ہے؟

تاہم محمد خان جونیجو ایک اچھے سیاستدان تھے اور خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے معاملات اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

بعض دفعہ وہ اہم معاملات پر جنرل ضیاء سے مشورے کے بغیر ہی فیصلہ کر دیتے تھے۔ افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کیلئے جنیوا کنونشن کے معاہدے پر انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے مشورہ کے بغیر ہی دستخط کر دیئے تھے۔

مزید پڑھیں:‌جب میر جعفر کا پوتا پاکستان کا صدر بنا

جب جونیجو کے اقدامات ضیاء کی برداشت سے باہر ہوئے تو انہوں نے آئین میں اپنی مرضی سے کی گئی 58( 2) بی کی شق کا استعمال کرتے ہوئے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا۔

تاہم انہوں نےمیاں نواز شریف کو بر طرف نہ کیا۔ میاں صاحب بطور نگران وزیراعلیٰ اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔

پھر تاریخ نہ یہ انوکھا واقعہ بھی دیکھا کہ نگران وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے نواز شریف نے انتخابی مہم بھی چلائی اور 4 حلقوں سے الیکشن بھی لڑا۔

وہ موقع جو  میاں صاحب نے گنوایا:

جمہوریت کا راگ الاپنے والے نواز شریف کے پاس اس وقت یہ موقع تھا کہ وہ اخلاقی برتری کا ثبوت دیتے ہوئے جونیجو کا ساتھ دیتے اور نگران وزیراعلیٰ بننے کی بجائے استعفیٰ‌دے دیتے۔

تاہم انہوں نے ضیاء الحق کی سرپرستی کو بہتر سمجھتے ہوئے ایسا نہ کیا۔ یوں‌ جنرل ضیاء الحق کی سیاسی سرپرستی نواز شریف کا پیچھا نہیں‌چھوڑتی۔

آج میاں صاحب کو لاڈلہ قرار دیا جارہا ہے تو نواز شریف اس لیبل کو ہر قیمت پر ہٹانا چاہتے ہیں، تاہم ان کی سہولتکاری اور ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کی گئی ڈیلز ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہیں گی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button