اہم خبریںپاکستانسیاست

12 اکتوبر 1999 کا مارشل لاء، اور مشرف دور حکومت کے پاکستان پر اثرات

کارگل جنگ ایک بڑا موڑ ثابت ہوئی، جس میں فوجی کارروائی کے حوالے سے سویلین قیادت کو مکمل معلومات نہ دینے اور بعد ازاں بین الاقوامی دباؤ پر انخلا کے فیصلے نے اختلافات کو بڑھایا۔

12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ایک بلا خون ریزی فوجی بغاوت کے ذریعے وزیرِاعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا  گیا۔

چھبیس سال گزرنے کے باوجود 12 اکتوبر 1999 کا مارشل لاء  پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔

آج اس واقعہ کی یاداشت کے دن کے موقع پر ہم جائزہ لیں گے کہ یہ بغاوت کیسے ہوئی، مشرف کے اقتدار کے برسوں میں کیا تبدیلیاں آئیں، اور اس دور کے مثبت و منفی اثرات کیا تھے۔

 

12 اکتوبر 1999 کا مارشل لاء ؛بغاوت کیسے ہوئی

بغاوت سے قبل سول و ملٹری کشیدگی

1990 کی دہائی میں پاکستان کی سول حکومتوں اور فوج کے درمیان تعلقات اکثر تناؤ کا شکار رہے۔ فوجی مداخلت کی روایت، حکومتوں کی برطرفیاں اور ادارہ جاتی کمزوریوں نے تصادم کی بنیاد رکھی۔

1999 تک نواز شریف کی حکومت اور فوجی قیادت کے مابین کشیدگی عروج پر تھی۔ کارگل جنگ ایک بڑا موڑ ثابت ہوئی، جس میں فوجی کارروائی کے حوالے سے سویلین قیادت کو مکمل معلومات نہ دینے اور بعد ازاں بین الاقوامی دباؤ پر انخلا کے فیصلے نے اختلافات کو بڑھایا۔

جب مشرف سری لنکا کے دورے پر تھے، اس دوران نواز شریف نے انہیں آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے اور کسی اور جنرل کو مقرر کرنے کی کوشش کی، جسے فوج نے ادارہ جاتی عمل میں مداخلت کے طور پر دیکھا۔

 

راتوں رات قبضہ

    • 12 اکتوبر 1999 کی شام:

      جیسے ہی حکومت نے مشرف کی برطرفی کا اعلان کیا، فضائیہ کو ان کا طیارہ اترنے سے روکنے کے احکامات دیے گئے۔ فوج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ہوائی اڈے، سرکاری نشریاتی ادارے اور اہم تنصیبات پر قبضہ کر لیا۔

    • فوج نے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے ذریعے اعلان کیا کہ ملک کو “مزید عدم استحکام” سے بچانے کے لیے فوج نے مداخلت کی ہے۔
    • 13 اکتوبر:

      جنرل مشرف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ فوج نے اداروں کو بچانے کے لیے اقدام کیا ہے۔

14 اکتوبر:

مشرف نے خود کو چیف ایگزیکٹو مقرر کیا، آئین معطل کیا اور صوبائی حکومتیں برطرف کر دیں۔

12 اکتوبر 1999 کا مارشل لاء تیز رفتار اور نسبتاً پرامن تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو گھر میں نظر بند کیا گیا اور بعد میں جلاوطن کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال کر پروویژنل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر (PCO) کے تحت بغاوت کو قانونی جواز دیا گیا، تاہم کئی ججوں نے حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دیا۔

 

جنرل مشرف کا دورِ حکومت: استحکام، پالیسیاں اور چیلنجز

ادارہ جاتی تبدیلیاں اور طاقت کا ارتکاز

اقتدار میں آنے کے بعد مشرف نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے:

  • نیشنل سکیورٹی کونسل (NSC) قائم کی تاکہ فوجی و سول قیادت کو اپنے زیرِاثر لایا جا سکے۔
  • عدلیہ پر کنٹرول حاصل کیا، کئی جج برطرف کیے یا نئے احکامات کے تحت حلف لینے پر مجبور کیا۔
  • آرڈیننسز اور صدارتی احکامات کے ذریعے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کیے۔
  • 2007 میں نیشنل ری کنسیلی ایشن آرڈیننس (NRO) نافذ کیا، جس کے تحت بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث سیاستدانوں کو معافی دے کر سیاسی حمایت حاصل کی گئی۔

 

معاشی پالیسیاں اور اصلاحات

مشرف کے دور کو عام طور پر اقتصادی ترقی اور جدیدیت کے لحاظ سے نمایاں قرار دیا جاتا ہے، اگرچہ ناقدین اسے غیر پائیدار سمجھتے ہیں۔

  • شوکت عزیز کو وزیرِ خزانہ (بعد میں وزیرِاعظم) مقرر کیا گیا، جنہوں نے نجکاری، تجارتی آزادانہ پالیسیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا۔
  • اس دور میں بعض سالوں میں ترقی کی شرح بلند رہی، اسٹاک مارکیٹ اور ٹیلی کام سیکٹر میں غیر معمولی وسعت دیکھی گئی۔
  • 9/11 کے بعد پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بن کر وار آن ٹیرر میں کلیدی کردار ادا کیا، جس سے مالی و عسکری امداد میں اضافہ ہوا۔

 

سکیورٹی، انتہاپسندی اور فوجی کارروائیاں

مشرف نے ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، تو دوسری طرف ملک میں انتہاپسندی میں اضافہ ہوا:

  • 2007 میں لال مسجد آپریشن نے اندرونِ ملک سخت ردعمل پیدا کیا۔
  • قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی، جس سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ساتھ عوامی غصہ بھی بڑھا۔
  • خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور بغاوت میں اضافہ ہوا، جبکہ مشرف پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے۔

 

سیاسی جواز اور انتخابات

مشرف نے 2001 میں ریفرنڈم کروا کر عوامی حمایت کا دعویٰ کیا اور 2002 کے انتخابات منعقد کرائے، جنہیں ناقدین نے فوجی اثر و رسوخ کے تابع قرار دیا۔

2007 میں عدلیہ کی برطرفی اور ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف وکلا تحریک اٹھی، جس نے بالآخر مشرف کو اگست 2008 میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔

 

اثرات اور میراث: مشرف دور نے پاکستان کو کیسے بدلا؟

مثبت پہلو

  • معاشی جدیدیت: ٹیلی کام، انفراسٹرکچر اور مالیاتی شعبے کی ترقی۔
  • ابتدائی استحکام: سول حکومتوں کے مقابلے میں ادارہ جاتی تسلسل برقرار رہا۔
  • بین الاقوامی تعلقات: 9/11 کے بعد امریکہ و مغرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری۔
  • سماجی اصلاحات: میڈیا لبرلائزیشن اور شہری جدیدیت کے اقدامات، اگرچہ جزوی۔

 

تنقیدات اور ناکامیاں

  • جمہوری خلا اور آئینی خلاف ورزیاں: آئین کی معطلی، عدلیہ کی برطرفی اور فوجی طاقت کا ارتکاز۔
  • انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں: جبری گمشدگیاں، میڈیا پر دباؤ، اور سیاسی مخالفین کی گرفتاری۔
  • انتہاپسندی میں اضافہ: دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں کے باوجود شدت پسندی بڑھی۔
  • سیاسی انجینئرنگ: NRO اور اتحادی جماعتوں کے ذریعے مصنوعی سیاسی توازن قائم کرنے کی کوشش۔
  • ادارہ جاتی کمزوریاں: سول و ملٹری طاقت کا عدم توازن برقرار رہا۔

 

مجموعی جائزہ

 

جنرل پرویز مشرف کا دور اصلاحات اور تضادات کا مجموعہ تھا۔
حامی اسے ترقی و جدیدیت کا زمانہ قرار دیتے ہیں، جبکہ ناقدین کے نزدیک یہ جمہوریت، آئین اور اداروں کے لیے نقصان دہ دور تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ان کا سیاسی ورثہ متضاد اور پیچیدہ ہے — نہ مکمل مثبت، نہ مکمل منفی۔

 

نتیجہ

12 اکتوبر 1999 کا مارشل لاء اور اسکی  26ویں سالگرہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فوجی مداخلت نے پاکستان کی جمہوری سمت کو کس طرح متاثر کیا۔

اگرچہ مشرف کے دور میں کچھ اصلاحات اور عارضی استحکام دیکھنے کو ملا، مگر اس نے سول اداروں اور فوجی طاقت کے درمیان عدم توازن کو مزید گہرا کر دیا۔

پاکستان آج بھی انہی ادارہ جاتی مسائل اور سول–ملٹری کشمکش کا سامنا کر رہا ہے، اس لیے مشرف دور کے اسباق آج بھی اہم ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button