اہم خبریںپاکستانجرم و سزا

جب ایک ننھی لاش نے پورے نظام کو جھنجھوڑ دیا ، ننھی سدرہ کی کہانی

پولیس ہسپتال پہنچی تو سات سالہ بچی سدرہ کی بے جان لاش ایمرجنسی وارڈ میں پڑی تھی۔

27 نومبر 2019 کی ایک سرد رات پولیس چوکی گلریز ، تھانہ چکلالہ کو رات تقریباً 3 بجے ایک کال موصول ہوئی کے سفاری ہسپتال کار چوک میں ایک سات سالہ بچی کی میت موصول ہوئی ہے۔

بتایا گیا کہ بچی کی موت طبعی معلوم ہوتی ہے لیکن لاش کو لواحقین کو سپرد کرنا ہے۔

سب انسپکٹر عدنان الپیال جو اس کہانی کے راوی ہیں، کہتے ہیں کہ اگر میت ہی لواحقین کے سپرد کرنی، تو پولیس کو کیوں بلایا گیا۔

یوں انہوں نے فوراً یونیفارم پہنا اور ہسپتال پہنچ گئے۔ ہسپتال پہنچے تو منظر ہی کچھ اور تھا۔

 

ہسپتال کے ابتدائی مناظر اور حالات:

 

پولیس ہسپتال پہنچی تو سات سالہ ننھی سدرہ کی بے جان لاش ایمرجنسی وارڈ میں پڑی تھی۔

پولیس نے ڈیوٹی پر موجود لیڈی ڈاکٹر سے استفسار کیا کہ بچی کو کیا ہوا ہے۔

ڈاکٹر نے جواب دیا کہ بظاہر جسم پر کوئی خراش زخم کے نشان نہیں اور نہ ہی کوئی تشدد کا سراغ ملا ہے۔

ڈاکٹر نے گھبراتے ہوئے الفاظ سے کہا بظاہر تو موت طبعی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو پوسٹ مارٹم کرا لیں۔

اس کہانی کے راوی سب انسپکٹر کہتے ہیں کہ اگر موت طبعی  تھی تو ڈاکٹر کی جانب سے پوسٹ مارٹم کرانے کا مشورہ کیوں دیا گیا؟ اور ان کی اواز میں یہ گھبراہٹ کیسی تھی۔ کیا یہ کوئی اشارہ تھا؟

پاس موجود بچی کے والد سے پولیس نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کچرہ چننے کا کام کرتے ہیں۔

ہر روز شام کو نکلتے ہیں اور رات دیر گئے دواڑھائی بجے واپس لوٹتے ہیں۔

آج  بھی  وہ معمول کے مطابق گھر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سرد رات میں بھی ان  بیٹی سات سالہ ننھی سدرہ باہر برآمدے میں سو رہی تھی۔ اس کے اوپر پرانی کوٹ اور سویٹر پڑے ہوئے تھے۔

پولیس نے جب استفسار کیا کہ باقی لوگ کہاں سو رہے تھے تو والد نے بتایا کہ ماں اور باقی بچے کمرے کے اندر سو رہے تھے۔

سات سالہ ننھی سدرہ کے والد کا کہنا تھا کہ انہوں نے سمجھا کہ شاید بچی ماں سے کسی بات پر ناراض ہو کر باہر برآمدے میں آ سوئی ہے۔

لیکن جب انہوں نے اسے اٹھانا چاہا تا کہ اندر لے جائیں تو وہ بالکل بے جان پڑی تھی۔

اس کے بعد بچی کو ہسپتال لایا گیا تو معلوم پڑا کہ اس کی وفات ہو چکی ہے۔

والد نے کہا کہ شاید سردی سے بچی کی موت ہوئی ہے۔اس نے پولیس سے گزارش کی کہ  آپ ہمیں اجازت دیں تاکہ ہم میت کو گھر لے کر روانہ ہوں۔

 

مزید پڑھیں: جانوروں کو اذیت دے کر قتل کرنے والی خاتون گرفتار

 

پولیس ننھی سدرہ کے پوسٹ مارٹم کے فیصلے تک کیوں پہنچی؟

 

والد کی آواز میں غیر یقینی، اور بیان میں موجود کئی سوالات ایسے تھے جن کے جوابات موجود نہ تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر کا اشارہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ پوسٹ مارٹم کرا لینا چاہیے۔

ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے پولیس اہلکار نے فیصلہ کیا کہ وہ لاش کا پوسٹ مارٹم کرآئیں گے۔

دوسری جانب بچے کے والدین اس بات پر بضد تھے کہ انہیں جلد از جلد روانہ کیا جائے کیونکہ گاؤں میں برادری کےلوگ ان کا انتظار کر رہے تھے۔

لیکن پولیس پوسٹ مارٹم کرانے کا ارادہ کر چکی تھی ۔ اتنے میں ہسپتال میں موجود اور سائیڈ پر کھڑے ایک اجنبی  شخص نے پولیس  اہلکار کے قریب آ کر ان کے کان میں سرگوشی کی۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ بچی کے والد کے ساتھ کچرا چننے کا کام کرتا ہے اور جب بچی کو ہسپتال لایا گیا تو وہ بھی سات آیا۔

اس اجنبی شخص نے پولیس کو بتایا کہ جب بچی کو ہسپتال لایا گیا اور ڈاکٹرز نے بچی کو چیک کیا تو اس کے بعد آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔

پولیس جو پہلے ہی پوسٹ مارٹم کرانے کا فیصلہ کر چکی تھی انہیں اب اس فیصلے پر مہر ثبت ہوتی معلوم ہوئی۔

بچی کی میت کو والدین کے ساتھ ریسکیو 1122 کی گاڑی میں پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا۔

پولیس نے اس اجنبی شخص کی مدد سے بچی کے گھر کی  لوکیشن معلوم کی اور وہاں پہنچ گئے۔

 

گھر کی تلاشی اور ملزم کی گرفتاری:

 

پولیس وہاں پہنچی تو گھر کے  باہر  کئی مقامی افراد جمع تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی واقعہ کے وقت وہاں موجود نہ تھا۔

پولیس اس کمرے میں داخل ہوئی تو رہائشی کمرہ ویسے ہی تھا جیسے بچی کے والد نے بتایا تھا ۔تاہم رہائشی کمرے سے کا ایک مکمل تاریک کمرہ بھی تھا۔

پولیس نے استفسار کیا کہ یہ کمرہ کس کا ہے تو بتایا گیا کہ یہ سدرہ کے 17 سالہ چچا کا ہے جس کی چند ماہ پہلے ہی شادی ہوئی مگر اس کی بیوی ناراض ہو کر میکے چلے گئی ہے۔

وہ کبھی یہیں ہوتا ہے اور کبھی پچھلی گلے میں ہمشیرہ کے گھر۔ آج بھی وہ ہمشیرہ کے گھر ہے۔

پولیس نے حیرانی کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور بچی کا چچا جو گھر کا فرد ہے، وہ یہاں موجود نہیں۔

پولیس نے حکم دیا کہ اس کو بلایا جائے اور کچھ دیر کے بعد ایک بے تاثر چہرے کے ساتھ 17 سالہ نوجوان ان کے سامنے کھڑا تھا۔

پولیس نے استفسار کیا کہ بیٹا تم گھر کے فرد ہو تمہاری بھتیجی کی موت ہوئی ہے اور تم سو رہے ہو تمام حالات سے اتنے نابلد کیسے ہو سکتے ہو۔

پولیس کی مزید انویسٹی گیشن ٹیم وقوعہ پر  پہنچی اور گھر کے ہر کونے کی تلاشی شروع ہو گئی۔

سدرہ کے 17 سالہ چچا کے کمرے کی ایک بار پھر تلاشی شروع ہوئی تو اپ کی بار پولیس کو بیڈ کے گدے پر خون کی نشان ملے ۔

پولیس کا معصوم بچی کے 17 سالہ چچا پر شک یقین میں بدل رہا تھا۔ لیکن اسے یہاں سے گرفتار کرنا ابھی دانشمندانہ فیصلہ نہ تھا ۔

پولیس نے نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے اسے کہا کہ تمہارا بھائی اس وقت ہسپتال میں موجود ہے، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔

یو اس بہانے نوجوان کو وہاں سے پولیس چوکی منتقل کیا گیا۔ پولیس نے رسمی تفتیش شروع کی تو تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد ہی نوجوان نے اپنا اعتراف جرم کر لیا۔

نوجوان نے بتایا کہ اس کی بیگم لڑائی کے بعد میکے  چلی گئی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں ہیجان سا تھا۔

اس دن وہ رات کے وقت اپنے بھائی کے گھر میں داخل ہوا۔ اپنی سات سالہ بھتیجی کو جو کمرے میں اپنی والدہ کے ساتھ  سو رہی تھی کو اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔

بعد ازاں اس نے بچی کو بدفعلی کا نشانہ بنایا۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ جب وہ اس قبیح  عمل سے فارغ ہوا تو بچی کا جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا،  شاید وہ مر چکی تھی۔

اس نے خوف میں آکر اس کے بدن کو صاف کیا، کپڑے پہنائے، باہر برآمدے میں لے جا کر چارپائی پر ڈالا، پرانے کوٹ سویٹر سے ڈھانپ دیا تاکہ اس کا جسم چھپ جائے ۔

 

اس کے بعد اس نے دروازہ بند کیا اور چپ چاپ نکل کر اپنی بہن کے گھر جا کر سو گیا۔

 

کیس کا فیصلہ:

 

حوا کی ایک اور بیٹی اپنے سگے چچا کی درندگی کا نشانہ بن چکی تھی۔ پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹس نے بھی نوجوان کو مجرم ثابت کر دیا تھا۔

بچی کے والد کسی طور ماننے کو تیار نہ تھا کہ وہ بھائی جس کی اس نے اپنے ہاتھ سے پرورش کی وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ؟

لیکن نوجوان کا اعتراف اور ثبوت اسے گنہگار ثابت کر چکے تھے۔

پولیس نے اچھے انداز میں اس مقدمے کی تفتیش کی اور ملزم کو عدالت نے بدفعلی کے جرم میں عمر قید اور بچی کو قتل کرنے پر دو بار سزائے موت سنائی۔

اس معاملے میں پولیس اگر سستی دکھاتی یا پھر والدین کی ہی بات مان کر اسے طبعی موت قرار دے کر معاملہ داخل دفتر کر دیتی تو ننھی سدرہ کبھی انصاف نہ پاسکتی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button