مرد کمانا چھوڑ دے تو کیا ہوگا؟
کوئی مرد کہے کہ وہ سکون سے رہے گا ۔ اسے نوکری کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا اور اسے کارروبار کے اصول بھی نہیں پتا۔ ایسے بندے کو کون قبول کرے گا؟

دنیا بھر میں خواتین کے حقوق پر بات ہونا شروع ہوئی ہے اور یہ ایک اچھا عمل ہے۔
خواتین کو ملازمت کے یکسر مواقع نہیں ملتے، انہیں ملازمت ملے تو مرد جتنا کام کرنے کے باوجود بھی تنخواہ پوری نہیں ملتی وغیرہ وغیرہ، یہ وہ موضوعات ہیں جو اب زیر بحث آنے لگے ہیں۔
خواتین کے حقوق پر بات اتنی ہو گئی ہے کہ اب مردوں نے بھی شکوہ کرنا شروع کردیا ہے کہ بھائی یہ جو ہر وقت ہر چیز ہمارے ذمے ڈال دی گئی ہے، ہمارے حقوق کی بات کون کرے گا؟
کیسے حقوق؟ جیسا کہ اگر کوئی مرد یہ کہہ دے کہ اب وہ کوئی کام نہیں کرے گا، مطلب کمائے گا نہیں۔
دنیا بھر میں کئی موضوعات کو ممنوعہ موضوعات کی فہرست میں ڈالا جاتا ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔
اس موضوع پر اگر کوئی بات کر بھی دی تو اسے پذیرائی کی بجائے تنقید ملتی ہے، آواز دب جاتی ہے اور موضوع پھر ممنوعہ ہو جاتا ہے۔
ایک ایسا موضوع یہ بھی ہے کہ فرض کریں ایک مرد کمانے سے انکار کردے تو کیا ہوگا؟
مرد کمانا چھوڑ دے تو کیا ہوگا؟
کوئی مرد کہے کہ وہ سکون سے رہے گا ۔ اسے نوکری کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا اور اسے کارروبار کے اصول بھی نہیں پتا۔
ایسے بندے کو کون قبول کرے گا؟ معاشرہ ؟ وہ تو چھوڑ دیں ایسا بندہ اپنے گھر والوں کیلئے ہی ناپسندیدہ ہو جائے گا۔
مرد کے ساتھ یہ کمانے کا مقصد جو نتھی کر دیا گیا ہے اس سے وہ مرتے دم تک جان نہیں چھڑا پاتا ہے۔
مشہور مصنف حسنین جمال کہتے ہیں کہ ” کمانے سے ہمیں مردوں کو اس قدر محبت ہے کہ "گھر داماد” کا لفظ گالی بنا دیا گیا ہے۔ کبھی رشتے کے اشتہار میں آپ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ "ضرورت ہے ایک بےروزگار مرد کی”۔ یعنی باقی سب کچھ چاہے جیسا بھی ہو، لیکن کمانا اس قدر بنیادی شرط ہے کہ نہ بھی لکھا جائے تو یہ طے ہے کہ بھائی چلتا پھرتا ہے تو کماتا تو ہو گا۔”
حسنین جمال مزید کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی لغت (ڈکشنری ) اٹھا لیں ، آپکو مرد سے متعلق ایسے ہی الفاظ ملیں گے، بریڈ ونر (Bread Winner)، پروائیڈر (Provider) ، کماؤ پوت اور برسرِ روزگار وغیرہ۔
یہ مرد جسے کمانے سے جوڑا جاتا ہے اگر بیمار ہو جائے تو تیمار داری کرنے والا شخص بھی یہی سوال کر ڈالتا ہے کہ بھائی ڈیوٹی پر واپس کب جاؤ گے۔
ایسا مرد اگر شادی شدہ ہو تو اس کی بیوی دوسری سے گفتگو میں اس جملے کا اضافہ کرتی دکھائی دے گی ” آپ کا بھائی کام پر نہیں جاتا ناں”۔
مثال ایسی خاتون سے کوئی سوال کرے کہ بہن آج اداس سے دکھائی دے رہی ہو۔ تو اس کا جواب ہوگا کیا کروں گھر کی حالات ہی ایسے ہیں، اوپر سے آپکا بھائی کام پر بھی نہیں جاتا ناں۔
ساری زندگی کمانے والا کیا مر کر سکون پا جاتا ہے؟
وہ کسی شاعر نے کہا تھا ناں مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
ساری زندگی کمانے اور گھر والوں کی خوشی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والا شخص مر کر بھی چین نہیں لے پاتا ہے۔
اس کی وجہ وہ وراثت ہوتی ہے جو وہ پیچھے چھوڑ کر گیا ہوتا ہے۔
لواحقین جب اس جائیداد کو بانٹتے ہیں تو اس وقت بھی یہی مرحوم شخص غائبانہ گالیوں کا مرکز ہوتا ہے۔
اگر کوئی مرد ساری زندگی اپنے گھر والوں کیلئے کماتے کماتے وفات پا جائے اور اس کے پاس کوئی زیادہ جائیداد نہ ہو تواس کے گھر والے ہی کہہ دیتے ہیں، مرنے والا مر گیا، ہمیں کونسا سکھ دے کر گیا ہے۔
کاش کہ یہ موضوع زیر بحث آئے اور معاشرے کو باور کرایا جائے کہ کوئی مرد اچھی کمائی کے بغیر بھی اچھا باپ، شوہر، بیٹا ، بھائی یا دوست بن سکتا ہے۔
خونی رشتوں کی اس فہرست میں دوستوں کو شامل کرنے کا مقصود یہ تھا کہ آجکل دوستی بھی انہی وجوہات پر ہوتی ہے کہ فلاں کماتا اچھا ہے، اس کے پاس پسہ بہت ہے۔ وگرنہ نہ کمانے والے شخص کے چند ہی دوست ہوتے ہیں اور یہ اس طرز کے بے روزگار ہوا کرتے ہیں۔
سو مرد، مر جائے گا لیکن کمائے گا ضرور ۔ اس لئے یہ سوال کہ اگر مرد کمانا چھوڑ دے گا تو کیا ہوگا، کسی جواب تک نہیں پہنچ پائے گا۔