
24 مارچ 2020 کو عمران خان ملک میں کورونا پھیلنے کے بعد کی صورتحال پر سینئر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے اور ان کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔
یہ گفتگو میڈیا پر لائیو نشر کی جارہی تھے جس میں عمران خان اپنی معاشی ٹیم اور صحت کیلئے مختص ٹیم کے ساتھ بیٹھے میڈیا پرسن کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے اور ساتھ ہی کورونا کے دوران عوام کو ریلیف کیسے دیا جائے گا اور ملک کیسے چلایا جائے گا جیسے موضوعات سامنے لا ئے جائیں گے۔
اس دوارن صحافی محمد مالک کو سوال کا موقع ملا تو انہوں نے ایک لمبی چوڑی گفتگو کی اور کئی سوالات بھی اٹھائے جس میں ان کا ایک سوال معیشت سے متعلق بھی تھا جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ معیشت کے فیصلے کون کر رہا ہے؟
محمد مالک عمران خان کے گریبان تک:
محمد مالک کا کہنا تھا کہ اگر (معیشت کو کچھ ہوتا ہے ) تو مجھے عمران خان کا گریبان پکڑنا ہے یا مجھے رضا باقر (گورنر سٹیٹ بینک ) کا گریبان پکڑنا ہے کیونکہ بعد میں یہ نہ کہا جائے کہ یہ تو ڈاکٹر باقر کر گیا ہے۔
ساتھ ہی سوال کے آغاز میں صحافی مالک نے عمران خان کے اطراف بیٹھے مشیروں کے بارے میں بھی کہا کہ آپ کے قریب تو غیرمنتخب افراد بیٹھے ہیں۔
مزید پڑھیں: شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس کو چپڑاسی سے تشبیہ
یہ سخت سوالات محمد مالک وقت کے وزیر اعظم سے کر رہے تھے اور اسے لائیو میڈیا پر نشر کیا جارہا تھا۔
اس کے بعد یہ نہ ہوا کہ محمد مالک کو ان کے چینل سے آف ایئر کر دیا جائے یا پھر ان سے سر عام معافی کا مطالبہ کیا جائے لیکن اب پانچ سال بعد میڈیا کی آزادی اس وقت تک آ چکی ہے کہ وقت کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کیا کسی وزیر مشیر سے بھی ایسے سخت سوالات نہیں کئے جاسکتے ۔ لیکن محمد مالک اس حد تک مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے پروگرام میں شرکت کرنے والے مہمانوں کی رائے پر بھی معافی مانگ رہے ہیں۔
مہمانوں کی رائے پر صحافی مالک کے معافی نامے:
دو روز قبل اچانک نجی نیوز چینل نے معافی نامے نشر کرنا شروع کر دیئے۔ ایک کاشف عباسی کے شو سے متعلق تھا ، جس میں کاشف عباسی توآف ایئر کر دیئے گئے ہیں لیکن ان کی جگہ شو کرنے والے اینکر نے ان کی رائے کو ذاتی کہہ کر چینل کو اس سے الگ کر دیا۔
دوسری جانب محمد مالک نے اپنے پروگرام میں مہمانوں کی رائے پر معافی مانگ ڈالی۔
محمد مالک نے اپنے دو گزشتہ شو جن میں سے ایک میں حافظ حمد اللہ مہمان تھے اور دوسرے میں سینیٹر حامد خان مہمان تھے پر ادارے کی جانب سے مہمان کی رائے پر معافی مانگ ڈالی۔
اس معافی نامے کے دوران اگرچہ وہ بے بسی کے عالم میں یہ بھی کہتے رہے کہ اگرچہ مہمان کی رائے اپنی ہوتی ہے اور اس کا ادارے کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سوشل میڈیا پر محمد مالک کی ویڈیو شیئر کر کے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ پانچ سالوں میں ملک میڈیا کی آزادی میں اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ پانچ سال قبل محمد مالک ایک منتخب وزیراعظم کو گریبان سے پکڑنے کی بات سوشل میڈیا پر کر رہے تھے لیکن اب وہ مہمانوں کی رائے پر بھی معافی مانگ رہےہیں۔