
11 مارچ 1948 کا دن تھا اور ایک جلوس مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا ۔اس احتجاج میں شریک افراد کا مطالبہ تھا کہ بنگالی زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔
مظاہرین اس بات پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے کے نئے جاری ہونے والے کرنسی نوٹ اور سکے بھی بنگالی کی بجائے اردو زبان میں نکالے گئے ہیں۔
جانتے ہیں اس احتجاج کی قیادت کون کر رہے تھے؟ شیر بنگلہ مولوی ابو القاسم فضل الحق جنہوں نے 23 مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان پیش کی تھی۔
اس جلوس کو روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور ان زخمی ہونے والوں میں اے کے فضل الحق بھی شامل تھے۔
لیکن اس زخمی ہونے سے بھی زیادہ بڑی تکلیف اس لیڈر کو آگے برداشت کرنا تھی۔ کیوں کہ پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی قراردادِ پاکستان پیش کرنے والا مولوی فضل الحق غدار قرار دے دیا گیا۔
بنگالی زبان کا مسئلہ اور قائد اعظم :
1948 میں جب یہ فسادات ہوئے تو ملک بھر میں اور بالخصوص مشرقی پاکستان میں یہ بحث عروج پر تھی کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی، بنگالی ہو گی یا دونوں۔
اب چونکہ اس پر احتجاج شروع ہو چکا تھا تو اس لئے قائد اعظم نے خود آگے بڑھ کر اس سوال کے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔
21 مارچ 1948 کو قائد اعظم نے ڈھاکا کے ریس کورس پارک میں تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے بنگالی عوام کو ان کی قربانیوں اور جدو جہد آزادی پر مبارکباد پیش کی۔
اب قائد اعظم اہم سوال کی طرف آئے جو کہ قومی زبان کا تھا۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کی
قومی زبان اردو ہی ہو گی کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کی ایک زبان نہ ہو۔
تاہم انہوں نے اس عزم کا ضرور اظہار کیا کہ بنگلہ زبان کو بنگال کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ آئین بناتے وقت ضرور غور میں لایا جائے گا۔
بنگالی عوام قائد کی بہت عزت کرتے تھے اس لئے یہ معاملہ وقتی طور پرٹھنڈا پڑ گیا۔ لیکن جب بانی پاکستان کی وفات کی بعد اس معاملے پر کوئی پیشرفت نہ ہوئی تو لاوا پھر سے پکنے لگا ۔
جب مسلم لیگ کے مقابلے میں عوامی لیگ بنی:
اب حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے جون 1949 میں مسلم لیگ کے مقابلے میں اپنی نئی جماعت عوامی لیگ کی بنیاد رکھ دی۔
جنوری 1952 میں اس وقت پاکستان کے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے ایک بیان دیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہونی چاہیے۔
یہ اعلان جس وقت میں کیا گیا اس وقت پاکستان کا پہلا آئین ترتیب دیا جارہا تھا ۔ اب جب بنگالیوں تک یہ بات پہنچی تو وہ عوامی لیگ کی قیادت میں احتجاج کو نکل آئے۔ اس احتجاج کو روکنے کیلئے ڈھاکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے 20 فروری 1952 کو ڈھاکہ میں دفعہ 144 نافذ کر دیا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے یہ پابندی ہوا میں اڑا دی ۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے اور زبردستی گاڑیاں روکنے لگے۔
پولیس اور طلباء کے درمیان یہ مظاہرے شدت اختیار کرنے لگ گئے اور پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کر دی جس سے پانچ طلباء جاں بحق ہو گئے۔
مظاہرین منتشر ہوئے لیکن ایسی خبریں جب بنگال میں پھیلیں کہ بنگالی زبان کیلئے پانچ طالبعلموں نے جان دے دی ہے تو غم و غصہ مزید بڑھ گیا۔
اگلے روز کا آغاز پھر ہنگاموں سے ہوا اور اب کی بار پھر خون کی ہولی کھیل دی گئی۔ ڈھاکہ کی صورتحال کرفیو لگا کر کنٹرول کر لی گئی اور ڈھاکہ یونیورسٹی کو بھی بند کر دیا گیا ۔ لیکن اس واقعے کے بعد عوامی لیگ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی جس کا فائدہ انہوں نے دو سال بعد صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں پایا۔
مارچ 1954 میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو اس میں مقبول ترین جماعت مسلم لیگ کے مقابلے میں نئی نویلی جماعت عوامی لیگ تھی۔
عوامی لیگ الیکشن کے لئے بھرپور تیار تھی اور اس نے دیگر بنگالی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس الائنس کا نام جگتو فرنٹ رکھا گیا اور اس کی قیادت کر رہے تھے اے کے فضل الحق۔
اس الائنس کے ایجنڈے میں دو مرکزی نقطے جس میں سے ایک مطالبہ مشرقی پاکستان کی خود مختاری کا تھا اور دوسرا مطالبہ بنگالی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا تھا۔
قراردادِ پاکستان پیش کرنے سے غداری کے الزامات سہنے والا فضل الحق:
الیکشن ہوا تو اس کے نتائج حیران کن تھے۔ اس قدر حیران کن کہ نئی نویلی عوامی لیگ نے 97 فیصد نشستیں نام کیں جبکہ مسلم لیگ صرف 3 فیصد تک محدود ہو گئی۔
اس الیکشن میں بڑے بڑے برج اس طرح الٹے کہ جگتو فرنٹ کے ایک طالبعلم نے مسلم لیگ کے مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ نورالامین کو بڑے مارجن سے شکست دے دی۔
جگتو فرنٹ جب یہ الیکشن جیتی تو ان کے وزیراعلیٰ شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق بنے۔ اس کے بعد یہ مطالبہ بہرحال منوا لیا گیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور بنگالی ہوں گی لیکن خود مختاری دینا کا معاملہ جوں کا توں تھا۔
جگتو فرنٹ کی حکومت کے دوران ہی بنگالیوں اور غیر بنگالیوں میں فسادات ٹوٹ پڑے جس میں سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔
اس احتجاج کے بعد جگتو فرنٹ کی حکومت کی شہرت کو نقصان پہنچا اور اخبارات میں ایسی خبریں چھپنے لگیں کہ اندیا سے ہندو اور آر ایس ایس کے لوگ بڑے پیمانے پر مشرقی پاکستان لائے گئے جن سے یہ فسادات ہوئے اور فضل الحق کی حکومت نے اس پر ایکشن نہ لیا۔
یہ الزامات بڑھتے بڑھتے اس وقت سنگین ہوئے جب وزیراعلیٰ فضل الحق پر غداری کے الزامات لگنے لگے۔
اس کی پیچھے وجہ ان کا ایک انٹرویو بنا جو جب اخبار میں چھپا تو اس میں منسوب ایک بیان لگا کہ مولوی فضل الحق مشرقی پاکستان کو علیحدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ اے کے فضل الحق نے اس سے انکار کیا لیکن ان پر غداری کے الزامات نہ تھم سکے۔ یوں ان کی حکومت کو صرف دو ماہ بعد ہی گورنر جنرل غلام محمد نے گورنر راج لگا کر ختم کر دیا۔
یوں قراردادِ پاکستان پیش کرنے والا شخص غداری کے الزامات میں اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ وہ حکومت جو اسے 97 فیصد مینڈیٹ پر ملی تھی۔