
کبھی آپ نے ایسا لمحہ محسوس کیا ہے جب سب کچھ معمول کے مطابق ہو، لیکن دل بےسبب گھبرا رہا ہو؟ جیسے کوئی ان دیکھے خطرے کی آہٹ ہو۔
یہ کیفیت عام نہیں، اور نہ ہی یہ محض خیالات کی ہلکی سی لہر ہے۔ یہ خوف کی وہ اندرونی آواز ہے، جو خاموشی سے ہمارے اندر جگہ بنا لیتی ہے۔
ایسی آواز جسے ہم دوسروں کو سنانے سے قاصر ہیں، مگر جو ہمارے ہر فیصلے، ہر احساس اور ہر تعلق کو متاثر کرتی ہے۔
خوف کہاں سے آتا ہے؟
انسانی دماغ کا ایک چھوٹا سا لیکن انتہائی متحرک حصہ "امیگڈیلا” ہمارے وجود کی حفاظت کے لیے ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ مگر اس میں ایک سادہ سی خامی ہے۔وہ خامی یہ ہےکہ یہ اصل خطرے اور تصوراتی خطرے میں فرق نہیں کر پاتا۔ جب ہم سوچتے ہیں:
"اگر میں ناکام ہو گیا؟”
"لوگ کیا کہیں گے؟”
"اگر وہ مجھے چھوڑ گیا؟”
یہ چھوٹے چھوٹے جملے امیگڈیلا کو چوکنا کر دیتے ہیں۔ دل کی دھڑکن بڑھتی ہے، پسینہ آنے لگتا ہے، اور ہم خود کو خطرے میں محسوس کرنے لگتے ہیں حالانکہ اصل میں ہمارے آس پاس کچھ بھی نہیں بدلا ہوتا۔
ذہن کی کھیتی میں ہم خود خوف کے چھوٹے چھوٹے بیج بوتے ہیں ۔ کچھ لاشعوری طور پر، کچھ تربیت اور ماحول کے تحت۔
اکثر والدین بچوں کو "دیکھو، گر جاؤ گے!” جیسے جملے سنا کر محتاط بناتے ہیں، مگر وہیں بچوں کے ذہن میں ایک بنیادی پیغام بھی جا رہا ہوتا ہے: "تم کمزور ہو اور خطرہ ہر جگہ ہے۔”
یہی پیغام آگے چل کر ہماری خود اعتمادی، جرات، اور فیصلے لینے کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔ ہم بظاہر کامیاب زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، مگر اندر سے خوف کے شکنجے میں جکڑے ہوتے ہیں ۔
ہر انسان خوف کو مختلف انداز میں جیتا ہے۔ ایک بچہ جو سوال کے جواب میں خاموش ہو جاتا ہے، ایک نوجوان جو خواب دیکھنے سے گھبراتا ہے، ایک عورت جو اپنی خواہشات کا اظہار نہیں کر پاتی، یا ایک مرد جو معاشرے کے جبر سے دب کر جیتا ہے۔ ان سب کی کہانیاں مختلف ہو سکتی ہیں، مگر جڑ ایک ہی ہے: خوف۔
یہ خوف ہمیں سکھاتا ہے کہ خاموش رہنا بہتر ہے، کوشش نہ کرنا محفوظ ہے، اور جتنا کم خود کو ظاہر کرو گے، اتنے کم خطرے میں رہو گے۔
خوف بلاشبہ ایک رکاوٹ ہے، مگر بعض اوقات یہی رکاوٹ ہمیں ہماری اصل پہچان تک لے جاتی ہے۔ جدید نفسیات یہی سکھاتی ہے کہ خوف کو دبایا نہیں جا سکتا بلکہ اسے سنا جانا ضروری ہے۔
جب ہم خوف کے پیچھے چھپے پیغامات کو سمجھنا شروع کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی اصل طاقت کا سراغ ملنے لگتا ہے۔
جب ہم بچوں کو خود اعتمادی، جذبات کا کھل کر اظہار کرنا، اور جذباتی شعور سکھاتے ہیں تو ہم صرف ان کی شخصیت ہی نہیں سنوارتے، بلکہ ایک خوف سے آزاد نسل تیار کرتے ہیں جو زندگی کے فیصلے خود اعتمادی سے لیتی ہے، جو فالوور نہیں بلکہ قائدین بنتی ہے۔
ایسی تربیت بچوں کو وہ داخلی استحکام دیتی ہے جو نہ صرف کامیابی بلکہ ذہنی سکون کا راستہ بھی کھولتی ہے۔
خوف ایک دروازہ ہے۔ قید کا بھی، نجات کا بھی۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ اس دروازے کو دیوار سمجھ کر رک جائیں، یا اسے کھول کر اس کے پار اپنا اصل وجود دریافت کریں۔ خوف آپ کا دشمن نہیں، بس ایک خاموش راہنما ہے جو آپ سے کہتا ہے: "یہیں کہیں تمہاری اصل طاقت چھپی ہے۔”