آرٹیکلزاویہ

جنرل ضیاء الحق کی وہ دھمکی جس سے انڈیا کا جنگی جنون ٹھنڈا پڑ گیا

بظاہر اس وقت صدر ضیاء الحق ایک کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے انڈیا گئے۔ لیکن ان کی دھمکی نے ایسا کام کیا کہ انڈیا کا جنگی جنون ٹھنڈا پڑ گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی میں عالمی طاقتوں کی دخل اندازی سے سیز فائر ہو گیا۔

یہ بات تو آج کی ہے جب دونوں ممالک کے پاس جدید ایٹمی ہتھیار اور میزائل ہیں۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں، جب پاکستان نے ابھی اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا باقاعدہ اعلان  نہیں کیا تھا، جنرل ضیاء کی ایک دھمکی سے انڈیا جنگ سے پیچھے ہٹ گیا۔

بظاہر اس وقت صدر ضیاء الحق ایک کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے انڈیا گئے۔ لیکن ان کی دھمکی نے ایسا کام کیا کہ انڈیا کا جنگی جنون ٹھنڈا پڑ گیا۔

 

جنگی حالات کا پس منظر:

 

ہوا کچھ یوں کہ 18 نومبر 1986 کو انڈیا نے راجستھان کے علاقے میں پاکستانی سرحد کے قریب فوجی مشقوں کا انعقاد کیا۔

یہ بہت بڑی فوجی مشقیں تھیں جن کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ یہ جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بڑی مشقیں معلوم ہوتی تھیں۔

 

پاکستان اس دوران خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ انڈیا فوجی مشقوں کی آڑ میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتا ہے۔

 

مزید پڑھیں : لائن آف کنٹرول پر رہنے والے پاکستانی شہریوں کی زندگی جہنم کیوں بنتی جا رہی ؟

 

اگرچہ اس وقت پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن اس پر کام جاری تھا اور پاکستان کولڈ اٹامک ٹیسٹ کر چکا تھا۔

دہلی کے ایک پروفسیر کے مطابق انڈیا اس وقت پنجاب پر حملہ کر کے اسے سندھ سے کاٹنا چاہتا تھا۔

چند تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اس وقت سندھ میں حالات کشیدہ تھے اور دشمن اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

پاکستان کو امریکہ کی طرف سے بھی ایسے اشارے مل چکے تھے جس میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔

 

جنرل ضیاء الحق کی دھمکی جس نے انڈیا کا جنگی جنون ٹھنڈا کیا:

 

یہ تھے وہ حالات جن میں اچانک پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق بطاہر ایک کرکٹ میچ دیکھنےکیلئے 21 فروری 1987  کو دہلی پہنچے۔

اندین وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ان کا بے دلی سے استقبال کیا۔

راجیو گاندھی کے مشیر خاص لکھتے ہیں کہ راجیو گاندھی  صدر ضیاء کے ساتھ میچ دیکھنے نہیں جانا چاہتے تھے لیکن انہیں قائل کیا گیا ۔

عین اس وقت کے جب میچ کیلئے روانگی ہو رہی تھی، راجیو گاندھی کے مشیر خاص لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے سرگوشی کے انداز میں راجیو گاندھی سے کہا کہ  تم پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہو۔

ٹھیک ہے حملہ کرو، لیکن اس کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی لیکن جنرل ضیاء اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ جنگ روایتی نہیں ایٹمی ہو گی۔

راجیو گاندھی کے مشیر خاص کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے ان حملوں کے نتیجے میں پاکستان نہ رہے لیکن مسلمان زندہ رہیں گے کیونکہ دنیا میں کئی اور اسلامی ممالک ہیں۔

تاہم اگر انڈیا صفحہ ہستی سے مٹ گیا تو دنیا سے ہندو ختم ہو جائیں گے۔

مشیر خاص کہتے ہیں کہ یہ بات سنتے ہیں سردی کے موسم میں راجیو گاندھی کو پسینے آنے لگ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء نے راجیو سے کہا کہ اگر میرے پاکستان واپس پہنچنے تک تم نے اپنی فوجوں کو واپسی کا حکم نہ دیا تو میں پاکستان پہنچتے ہی ایک حکم دوں گا، فائر۔

 

راجہ ظفر الحق کا رد عمل:

 

سابق وفاقی وزیر راجہ ظفر الحق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء راجیو گاندھی کو سائیڈ پر لے گئے اور انہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے ( یعنی کہ ایٹمی ہتھیار) وہ ہمارے پاس بھی ہیں۔

لہذا بہتر ہوگا کہ وہ اپنی فوج پیچھے ہٹا لیں ۔ یہ سنتے ہیں راجیو گاندھی کو پسینہ آگیا۔

تاہم راجہ ظفر الحق راجیو گاندھی کے مشیر خاص کی اس بات کو درست نہیں سمجھتے کہ جنرل ضیاء نے یہ دھمکی دی کہ اس حملے  دنیا سے ہندو ختم ہو جائیں گے۔

بہر حال جنرل ضیاء کی اس دھمکی نہ اپنا کام کر دکھایا ۔ صرف ایک ہفتے بعد ہی 27 فروری کو انڈیا نے بارڈر سے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔

یوں پاکستان ایک ان چاہی ایٹمی جنگ میں جانے سے بچ گیا اور اس کا کریڈٹ جنرل ضیاء کی بصیرت کو جاتا ہے جنہوں نے کرکٹ میچ دیکھنے  کے بہانے دونوں ممالک کو جنگ سے بچالیا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button