بلاگزاویہ

جب والدین اپنے خواب بچوں پر تھوپ دیتے ہیں

آپ نے یہ جملے اکثر سنے ہوں گے "میں ڈاکٹر بنناچاہتا تھا، مگر حالات نے اجازت نہ دی، اب میرا بیٹا میرا خواب پورا کرے گا۔"

آپ نے یہ جملے اکثر سنے ہوں گے "میں ڈاکٹر بنناچاہتا تھا، مگر حالات نے اجازت نہ دی، اب میرا بیٹا میرا خواب پورا کرے گا۔”

"میرے ماں باپ نے مجھے کچھ نہیں بننے دیا، لیکن میری بیٹی کو میں کچھ بڑا بناؤں گا۔”

یہ جملے بظاہر محبت سے بھرپور لگتے ہیں، مگر ان کے اندر ایک خطرناک نفسیاتی بوجھ چھپا ہوتا ہے۔

جب والدین اپنی ادھوری خواہشات، خواب اور محرومیاں بچوں پر لاد دیتے ہیں، تو وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جذباتی غلامی کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ بچہ خود کیا چاہتا ہے؟ اس کے دل کی آواز کیا ہے؟

 

خواب یا بوجھ؟

 

بچے کا ذہن ایک نازک تخلیقی زمین ہوتا ہے۔ اس پر اگر مسلسل دوسروں کے خواب بوئے جائیں، تو وہاں اس کا اپنا بیج کب اگے گا؟

اس کی اپنی خواہش، رجحان، صلاحیت اور شخصیت سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور وہ بچہ "بس فرمانبردار” بن جاتا ہے۔

 

ماہر نفسیات Carl Jung کہتے ہیں:

 

"Nothing has a stronger influence psychologically on their children than the unlived life of the parent.”

 

یعنی ماں باپ کی وہ زندگی جو وہ خود نہ جی سکے، بچوں پر سب سے گہرا اثر ڈالتی ہے۔

جب بچہ مسلسل والدین کی توقعات کا بوجھ ڈھوتا ہے، تو وہ آہستہ آہستہ اپنی اصل شناخت کھو دیتا ہے۔ وہ اپنے جذبات، ترجیحات اور خوابوں سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ وہ اندر ہی اندر سوال کرتا ہے:

"اگر میں وہ نہ بن پایا جو میرے والدین چاہتے ہیں، تو کیا وہ مجھ سے محبت کریں گے؟”

 

مزید پڑھیں: خوف کہاں سے آتا ہے؟

 

یہ سوال بچے کے لاشعور میں ایک زہر گھول دیتا ہے اور اکثر اسے anxiety، guilt، depression  یا پھر بغاوت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔

کئی بار وہ والدین کی خواہش پوری کرنے کے چکر میں ایک ایسی فیلڈ چن لیتا ہے جس سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور پوری زندگی بے مقصد گزار دیتا ہے۔

یہ سمجھنا لازمی ہے کہ ہر بچہ ایک الگ شخصیت کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ اس کے پاس اپنی بصیرت، اپنے رجحانات، اور اپنی خواہشات ہوت۔

آئن سٹائن نے کہا تھا:

"Everybody is a genius. But if you judge a fish by its ability to climb a tree, it will live its whole life believing it is stupid.”

 

تو اگر ہمارا بچہ مصور بننا چاہے، اور ہم اسے انجینئر بنانے پر تُلے رہیں، تو کیا ہم اسے ناکامی کی سمت نہیں دھکیل رہے؟

حل کیا ہے؟

 

والدین کو سب سے پہلے خود سے یہ سوال کرنا ہوگا:

"کیا میں اپنے بچے کو اس کی اپنی کہانی لکھنے دے رہا ہوں، یا اس پر اپنی کہانی مسلط کر رہا ہوں؟”

ضرورت ہے کہ ہم سننے والے والدین بنیں، مشورہ دینے والے نہیں۔ ہمیں ان کی دلچسپیوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، ان کے اندر کی آگ کو دیکھنا ہوگا نہ کہ صرف اپنی خواہشات کی تصویر۔

یہی تربیت ایک بااعتماد، خودمختار اور خوشحال انسان کو جنم دے گی۔ ایسا انسان جو زندگی میں اپنا راستہ چن سکے، اور کامیابی کو اپنی تعریف کے مطابق جئے نہ کہ صرف دوسروں کی خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی ذات کو گْم کر بیٹھے۔

 

تنویر گھمن

تنویر گھمن مصنف، ماہر تعلیم، اور ٹیچرز ٹرینر ہیں۔ شعبہ تعلیم میں دو دہائیوں سے سرگرم ہیں، اور تدریسی اصلاحات، سیکھنے کے جدید طریقوں اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی پر کام کر رہے ہیں۔ بطور مصنف انھوں نے ذاتی کامیابی اور سیلف ہیلپ کے موضوع پر پچھلے سو سالوں میں لکھی جانے والی 100 سب سے مؤثر کتابوں کو اردو قارئین کے لیے 5 منٹ کی آسان تحریروں میں پیش کرنے کا منفرد سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر مشہور کتابوں کی اہم ترین باتوں کو سادہ اور آسان انداز میں پیش کرنا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ذاتی بہتری، کامیابی اور ذہنی نشوونما کے اصولوں سے استفادہ کر سکیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button