صحتمتفرق

بریسٹ کینسر کی تشخیص اب مصنوعی ذہانت سے قبل از وقت ممکن

ناروے کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (ایف ایچ آئی) کی تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسی خواتین کی تشخیص ممکن ہے جن میں بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے اور یہ تشخیص کینسر کے سامنے آنے سے قبل مممکن ہے۔

مصنوعی ذہانت کی مدد سے بریسٹ کینسر کی تشخیص کی تحقیق:

ایف ایچ آئی ناروے، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور واشنگٹن یونیورسٹی کے پانچ ریسرچرز کو 2004 اور 2018 کے درمیان نارویجن ڈیٹیکٹشن پروگرام میں حصہ ینے والی 116,495 خواتین کی میموگرافی کا تجزیہ کرنے کے لیے دستیاب اے آئی پروگرام تک رسائی دی گئی۔ مجموعی طور پر، 1,607 خواتین میں بریسٹ کینسر ہوا۔
الگورتھم اس بات کی پیش گوئی کرنے کے قابل تھا کہ کن خواتین میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اور یہاں تک کہ تشخیص سے چار سے چھ سال پہلے، یہ معلوم کرنے کے قابل تھا کہ کون سی خواتین کو زیادہ کو خطرہ ہے۔
سولویگ ہوف ونڈ جو کہ اس پروگرام کے سربراہ ہے نہ بتا یا کہ ہم نے نوٹ کیا کہ جن خواتین میں بریسٹ کینسر کا خدشہ زیادہ آیا ان کی چھاتی کی تشخیص میں‌مصنوعی ذہانت کا سکور دیگر خواتین کی نسبت تقریباً دوگنا تھا۔ ریسرچ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کے مارکیٹ میں دستیاب دیگر مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے استعمال سے انفرادی نوعیت کی مزید تشخیص میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
ناروے کی پبلک ہیلتھ ادارے نے کہا ہے کہ AI کو چھاتی کے کینسر کی جلد پتہ لگانے، اخراجات کو کم کرنے اور خطرے میں پڑنے والی آبادی کی جان بچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:‌ہیپاٹائٹس سی اعداد و شمار؛ پاکستان دنیا ٹاپ کر گیا

چھاتی کے کینسر کے خوفناک اعداد و شمار:

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، 2022 میں 6 لاکھ 70 ہزار خواتین بریسٹ کینسر سے موت کے منہ میں چلی گئیں، جو کہ زیادہ تر ممالک میں خواتین میں کینسر کی سب سے عام شکل ہے۔ یہ مطالعہ جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن نیٹ ورک میں شائع ہوا ہے، جو ممتاز طبی جرائد کے مجموعے سے ترتیب دیا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن خواتین میں اس سے متعلق شعور نہ ہونے اور علاج میں شرم و حیاء کا معاملہ رکھ جانے کی وجہ سے جب تک علاج پر ضامندی ظاہر کی جاتی ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
دوسری جانب خواتین میں بریسٹ کینسر کی آگاہی کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات تو کئے جاتے ہیں لیکن عملی سطح پر ویسے اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے جس سے خواتین اس موذی مرض کی بروقت تشخیص اور علاج کی سہولیات پا سکیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button