
پنجاب اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کے ایم پی اے اور اس سے قبل اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیلئے موزوں سمجھے جانے والے میاں اسلم اقبال ابھی تک روپوش ہیں اور ابھی تک وہ اسمبلی کے کسی اجلاس میں حاضر نہیں ہوسکے نہ ہی اپنی رکنیت کا حلف اٹھایا۔
اسلم اقبال پولیس کو کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔ اس سے قبل انکا نام بطور وزیر اعلیٰ پنجاب دیا گیا لیکن وہ اسمبلی نہیں آ پاتے، یوں انکی جگہ رانا آفتاب احمد خان نے یہ الیکشن لڑا ۔ اس کے بعد میاں اسلم اقبال کا نام بطور اپوزیشن لیڈر بھی زیر گردش رہا۔
تاہم حلف نہ اٹھا پانے اور گرفتاری سے بچنے کیلئے وہ سامنے نہ آئے اور اب انکی جگہ ملک احمد خان بھچر یہ ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ تاہم اب ان کے حلقے لوگ ان کی خیریت کیلئے فکر مند رہتے ہیں۔
میاں اسلم اقبال اگرچہ عملی طور پر سیاست میں ایکٹو نہیں ہیں لیکن وہ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایکٹو نظر آتے ہیں اورپاکستان کے سیاسی منظر نامے پر وقتا فوقتاً اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کارکنان کو اپنی ہی پارٹی سے خطرہ
کل تحریک انصاف کے دفتر پر ہونے والے ریڈ پر بھی انہوں نے کھل کر رائے دی۔ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر میاں اسلم اقبال نے لکھا کہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کے ممبران اور عمران خان کے نظریے کا ساتھ دینے والے ایکٹویسٹس کے اغوا اور غیر قانونی گرفتاریوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا ہے ۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان پڑھے لکھے باشعور اور پروفیشنل نوجوانوں سے ریاست کو کیا خطرہ لاحق ہے جو ہر چند روز بعد بغیر کسی جرم کے انکو اٹھا کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔ کیا آزادی اظہار رائے پاکستان میں اتنا بڑا جرم بن چکا ہے کہ عوام ایک سیاسی جماعت کی حمایت بھی نہیں کرسکتی ؟ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جو کہ اس وقت بوٹ پالشی کرتے ہوئے اس کام میں سہولتکاری کر رہی ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ بھی ایک سیاسی جماعت ہی ہیں ! خدارا اس ملک کے نوجوانوں میں اتنی نفرت نہ گھولیں کہ کل کو پچھتاوا ہو۔
اس سے قبل وہ صنم جاوید، بجلی کے بلوں ، بنوں حملہ ، سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے واقعہ سمیت ہر اہم موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔