اہم خبریںپاکستان

3 ممبران صوبائی اسمبلی اب پنجاب کی یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ کا لازمی حصہ قرار

تین ممبران میں سے ایک ممبر خاتون لازمی ہو گی۔ اراکین کی  نامزدگی سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے کی جائے گی۔

پنجاب اسمبلی سے پنجاب یونیورسٹیز اینڈ انسٹیٹوٹس لاز ترمیمی بل 2025 کی منظوری کے بعد پنجاب بھر کی سرکاری اور نجی جامعات کی نظم و نسق میں بڑی تبدیلیاں ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

قوانین میں تبدیلیوں کے بعد اب نجی اور سرکاری جامعات کے سنڈیکیٹس کی از سر نو تشکیل ہو گی جس میں پنجاب اسمبلی کے تین اراکین سنڈیکیٹ کا حصہ بنیں گے جن میں سے ایک خاتون رکن لازمی ہو گی۔

نئے قوانین نے طلباء، یونیورسٹی فیکلٹی، وائس چانسلرز، اور ماہرین تعلیم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس فیصلے کو تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت تصور کیا جارہا ہے۔

 

یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد میں اضافہ:

 

تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی سے پنجاب یونیورسٹیز اینڈ انسٹیٹوٹس لاز ترمیمی ایکٹ بل 2025 کی منظوری کے بعد سے تعلیمی حلقوں میں انتہائی تشویش پائی جارہی ہے۔

نہ صرف اس بل کی مںظوری بلکہ اسے جس انداز سے پیش اور مںظور کرایا گیا اس پر بھی کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم پی اے امجد علی جاوید کی جانب سے پرائیوٹ ممبر بل کے طور پر اس قانون کو اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے مںظور کر لیا گیا۔

اس بل کے مطابق اب پنجاب کی نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ میں تین ایم پی ایز لازمی ہوں گے۔ تین ممبران میں سے ایک ممبر خاتون لازمی ہو گی۔ اراکین کی  نامزدگی سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے کی جائے گی۔

بل کے مسودے میں موجود   مقاصد اور وجوہات کے سیکشن میں لکھا گیا کہ ” مام تعلیمی اداروں میں عوامی نمائندوں کو مساوی نمائندگی دی جائے تاکہ ان یونیورسٹیوں وغیرہ کے نظم و نسق کو بہتر بنایا جا سکے۔”

نئے قوانین سے کونسے ادارے متاثر ہوں گے؟

 

نئے قوانین سے متاثر ہونے والی یونیورسٹیوں کی تعداد 26 ہو گی جن کے نام بل میں درج کئے گئے ہیں۔

اس فیصلے سےمتاثر ہونے والی سرکاری جامعات میں یونیورسٹی آف دی پنجاب لاہور، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، یو ای ٹی لاہور اور یو ای ٹی ٹیکسلا، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد، محمد نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر ملتان، یونیورسٹی آف ساہیوال، پیر مہر علی شاہ ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی، فاطمہ یونیورسٹی لاہور، فاطمہ یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس لاہور، یونیورسٹی آف رسول منڈی بہاؤالدین، میر چاکر خان رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان، پنجاب تیانجن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہور، یونیورسٹی آف اوکاڑہ، یونیورسٹی آف سیالکوٹ، یونیورسٹی آف نارووال اور یونیورسٹی آف کمالیہ شامل ہے۔

 

مزید پڑھیں: اردو کی درسی کتب میں بڑی غلطیاں پکڑی گئیں

 

نجی شعبے کے اداروں میں یونیورسٹی آف سدرن پنجاب ملتان، قرشی یونیورسٹی، لاہور گیریژن یونیورسٹی، ٹائمز انسٹی ٹیوٹ آف ملتان، گلوبل انسٹی ٹیوٹ لاہور اور نور  انٹرنیشنل یونیورسٹی شامل ہیں۔

 

بل پر تنقید:

 

بل پر اپوزیشن، اور تعلیمی ماہرین کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے جامعات کی سنڈیکیٹس اور دیگر امور سے متعلق برق رفتار قانون سازی کی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ بلز بغیر کسی تیاری کے اور مقررہ قواعد و ضوابط کے پاس کئے گئے۔

اس ترمیمی بل کو پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اقرار احمد خان کے مطابق اس بل پر پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشین، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بھی مخالفت کی تھی لیکن اس بل کو پاس کر دیا گیا۔

تعلیمی ماہرین نے اس بل کی مںظوری کو تعلیمی نظام کیلئے برا شگون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کو چلانے میں مشکلات ہوں گی ۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں تعلیمی امور کی بجائے سیاست ہوتی نظر آئے گی۔

اب جبکہ یہ قانون پاس ہو کر فوری طور پر نافذ العمل ہو گا تو  یونیورسٹیوں کو اپنے سنڈیکیٹ میں بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔

اب دیکھنا ہوگا کہ اس بل پر پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ماہرین تعلیم کی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی کی جاتی ہے یا اس عجلت میں پاس کئے گئے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرایا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button