
گزشتہ چند ہفتوں میں سوشل میڈیا پر ایک نیا رحجان دیکھنے کو ملا ہے جس کے تحت لوگ اپنی تصاویر کو جدید ترین امیج جنریشن ٹول کا استعمال کرتے ہوئے تبدیل کر رہے ہیں جسے گیبلی آرٹ کا نام دیا جارہا ہے۔
اس میں لوگ اپنی ذاتی تصاویر کے ساتھ کچھ میمز وغیرہ کو بھی اس انداز میں نئے سرے سے بنا رہےہیں اور کچھ لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شاہکار سامنے لا رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔
صرف عام لوگ نہیں، مشہور شخصیات بھی اس ٹرینڈ میں حصہ لے رہی ہیں اور اپنی پروفائل پکچرز اس ٹیکنالوجی کی مدد سے تبدیل کر رہی ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے بھی اپنی تصویر کو گیبلی سٹائل میں تبدیل کر کے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا۔
ہمیشہ کی طرح اس نئے ٹرینڈ میں بھی ہم سوالات اٹھائے بغیر شامل ہورہے ہیں جس میں کئی قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
گیبلی آرٹ کا آئیڈیا کہاں سے آیا؟
سٹوڈیو گیبلی جاپان کا ایک مقبول ترین انیمیشن (Animation ) سٹوڈیو ہے جس کے آئیڈیا کو کاپی کر کے اب مصنوعی ذہانت سے جوڑا گیا اور یوں لوگ اس آرٹ کے ذریعے اپنی تصاویر بنانے میں مصروف ہیں۔
اس آرٹ کے استعمال کے وہ اخلاقی پہلو جنہیں نظرانداز کیا جارہا ہے؟
ماہرین کہتےہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس آرٹ کے استعمال سے انسانی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ اس میں کاپی رائٹ کا اخلاقی پہلو بھی آ جاتا ہے۔
کاپی رائٹ اس لئے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق گیبلی سٹوڈیو کے شریک بانی ہیوایو میازاکی نے 2016 میں ایک انٹرویو کے دوران مصنوعی ذہانت کے آرٹ میں استعمال پر شدید رد عمل دیتے ہوئے اسے آرٹ میں استعمال نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے بنا اجازت استعمال سے کاپی رائٹ کا اخلاقی پہلومتاثر ہوتا ہے۔
اس آرٹ کو استعمال کرنے کے قانونی مسائل کیا ہوسکتے؟
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اپنی ذاتی تصاویر کو مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز کے سپرد کرنا اچھی روایت نہیں ہے۔ ذاتی تصاویر کو اے آئی کے الگورتھم کے سپرد کرنا مستقبل میں کوئی نئی پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔
کیونکہ ہم بنا سوچے سمجھے ہی اپنی ذاتی تصاویر ان ٹولز کے سپرد کر رہے ہیں تو ہمارے ذاتی ڈیٹا کے استعمال میں بھی اجازت نہ لینے کا وہی قانون اپنایا جاسکتا ہے جو ابھی اس آرٹ کے استعمال میں اپنایا جارہا ہے۔
مصنوعی ذہانت سے تخلیقی کام کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے مزید پذیرائی ملنی چاہیے تا کہ فنون میں مثبت اضافہ ہو۔ تاہم اس میں اخلاقی اور قانونی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔