
کبھی آپ نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو دفتر وقت سے پہلے پہنچتے ہیں، چھٹی کے دن بھی میلز چیک کرتے ہیں، ہر دعوت سے یہ کہہ کر جلدی نکل لیتے ہیں کہ “بس ایک ضروری میٹنگ ہے”؟ ان کا کیلنڈر بھرا ہوتا ہے، فہرستیں طویل، اور کارکردگی بہترین ہوتی ہے ۔
یہ لوگ بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں، مگر اندر سے وہ اپنی ہی ذات سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ مذہب میں خود کو چھپا لیتے ہیں ، مسلسل عبادات، وظائف اور نوافل تاکہ وہ اندر سے آنے والی آوازیں نہ سنیں، ویسے ہی کچھ لوگ کام میں پناہ لے لیتے ہیں۔ تاکہ ماضی کے زخم، ٹوٹے ہوئے رشتوں کی کرچیاں ، اور اندر کا خالی پن انہیں چھو نہ سکے۔
ماہرینِ نفسیات اس کیفیت کو purpose-driven dissociation کہتے ہیں، یعنی کسی مقصد کی آڑ میں خود کو فراموش کرنا۔
جو لوگ بچپن میں کسی طرح کی تنہائی یا جبر کا شکار ہوئے۔ جن کی آواز کو دبا دیا گیا ۔یا جنہوں نے رشتوں میں صرف ذمہ داریاں نبھائیں ۔ وہ اکثر کام کو اپنی نئی پہچان بنا لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ واحد جگہ ہوتی ہے جہاں انہیں کنٹرول، پہچان، اور وقتی کامیابی کا احساس ملتا ہے۔
ایسے لوگ جب تنہا ہوتے ہیں، سب کچھ تھم جاتا ہے، رات گہری ہو جاتی ہے، اسکرین بند ہو جاتی ہے تو انکے اندر سے ایک سوال ابھرتا ہے: “میں اتنا کیوں بھاگ رہا ہوں؟”
مگر چونکہ وہ رکنے سے ڈرتے ہیں، اس لیے اگلے دن پھر صبح سب سے پہلے دفتر پہنچ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: زندگی کا حقیقی مقصد: وکٹر فرانکل کی کتاب کا ناقابل یقین سبق
ورکاہولزم ؛ حقیقت سے فرار کا راستہ:
بعض اوقات یہ “کام سے محبت” درحقیقت زندگی سے فرار ہوتا ہے۔ اور یہی رویہ جب روزمرہ کی عادت بن جائے، تو اسے ورکاہولزم کہتے ہیں۔ ایک ایسی نفسیاتی لت، جو انسان کو اندر سے خالی کر دیتی ہے اور باہر سے تھکا دیتی ہے۔
ورکاہولکس اکثر خود کو “ذمہ دار” اور “پرفیکشنسٹ” کہتے ہیں، مگر ان کے اردگرد کے لوگ شریکِ حیات، بچے، دوست، آہستہ آہستہ ان کی زندگی سے کٹنے لگتے ہیں۔ ایسے والدین اپنے بچوں کو صرف سوتے وقت دیکھتے ہیں، اور جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو وہ جذباتی ربط کہیں نہیں ملتا۔ شریکِ حیات کی خاموشی، باتوں کی کمی، قربت کا فقدان، سب کچھ کامیابی کے شور میں دب جاتا ہے۔
تحقیقات کے مطابق، ورکاہولزم نہ صرف ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے، بلکہ نیند کی خرابی، ازدواجی مسائل، اور خود اعتمادی میں شدید کمی کا باعث بھی بنتا ہے۔ وہ انسان جو سب کو دے رہا ہوتا ہے خود کے لیے کچھ نہیں بچا پاتا۔
کام برا نہیں، کام ایک نعمت ہے۔ یہ شناخت دیتا ہے، مقصد دیتا ہے، خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ لیکن جب کام ہمیں خود سے، اپنے پیاروں سے، اور اپنے جذبوں سے کاٹ دے تو یہ کامیابی نہیں، یہ ایک خاموش تباہی ہے۔
زندگی کا حسن اور سکون توازن میں ہے۔ زندگی کام کے لئے نہیں بنی، کام زندگی کا ایک حصہ ہے، تمام زندگی نہیں۔ میلوں تک پھیلے قبرستانوں میں پڑی مٹی کی ڈھیریوں کو بھی کبھی یہی فکر رات بھر بے چین رکھتی تھی کہ ان کے بغیر ان کے دفتر کا، انکی دوکان کا اور انکے کاروبار کا کیا بنے گا۔
ٹھہریے، دو چار گہرے لمبے سانس لیجیے اور جانے دیجیے۔۔