
نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مدرسہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق اپنے ننھے بیٹے سمیت شہید ہو گئے۔
پولیس اور میڈیا رپورٹس اور عینی شاہدین کے مطابق حملے کا ہدف مولانا حامد الحق تھے۔ وہ نماز جمعے کی ادائیگی کے بعد گھر کی جانب جانے کیلئے مسجد سے نکلے ہی تھے کہ خودکش حملہ آور نے مولانا کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا جن سے مولانا حامد الحق اور ان کے ننھے بیٹے سمیت چھ افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔
:باب شہید، بیٹا شہید ، پوتا شہید
دارالعلوم حقانیہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں مولانا حامد الحق کے بیٹے سمیت شہادت کے بعد مولانا سمیع الحق کے گھرانے میں تین شہید ہو گئے۔
سال 2018 نومبر میں مولانا سمیع الحق کو ان کے گھر میں نامعلوم افراد نے گھس کر چاکو کے وار کر کے شہید کر دیا تھا۔ یوں مسجد میں اس حملے میں مولانا حامد الحق کے بیٹے سمیت شہادت کے بعد باب شہید، بیٹا شہید اور پوتے کے بھی شہید ہو گئے۔
مولانا حامد الحق کون تھے؟
مولانا حامد الحق جمیعت علمائے اسلام س کے سربراہ، اور مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم تھے۔ وہ مولانا سمیع الحق کے بیٹے تھے۔ سال 2018 میں والد کے قتل کے بعد انہوں نے اپنی جماعت کی صدارت سنبھالی۔
حامد الحق بطور سیاسی رہنما بھی جانے جاتے تھے ۔ انہوں نے مذہبی جماعتوں کے الائنس متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے سال 2002 میں مشرف دور میں الیکشن لڑا اور وہ اپنے اکوڑہ خٹک کے حلقے سے جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور سال 2007 تک وہ رکن قومی اسمبلی رہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے اس کے بعد بھی الیکشن لڑا لیکن وہ کامیابی حاصل نہ کر سک
مزید پڑھیں: بلوچستان کی شاہراہوں پر سفر اب موت کو دعوت دینے کے مترادف
: دارالعلوم حقانیہ ایک اہم ادارہ
خودکش حملے کا نشانہ بننے والا دارالعلوم حقانیہ کوئی اہم مدرسہ نہیں ہے، یہ مذہبی و سیاسی اثرو رسوخ رکھتا ہے۔
اس کی سنگ بنیاد مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبد الحق نے 1947 میں رکھی تھی۔ یہ ماضی میں افغانستان سے ہونے والی تجارت و آمدورفت کے درمیان ایک اہم مقام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے بھی ماضی میں بڑی تعداد میں لوگ یہاں زیر تعلیم رہے۔
اس مدرسہ کو طالبان کی یونیورسٹی کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے اور مولانا سمیع الحق جنہیں عالمی میڈیا بابائے طالبان بھی کہتا ہے یہ سیاسی منظر نامے پر بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی یہ مدرسہ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے کہ کیونکہ افغان حکومتوں میں بڑے عہدوں پر رہنے والے اکثر لوگ یہیں سے فارغ التحصیل تھے۔
والد کی وفات کے بات مولانا سمیع الحق نے اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالی تھی۔ ان کی وفات کے بعد مولانا حامد الحق نےیہ فریضہ سر انجام دیا۔
ایک اہم سیاسی اور مذہبی رہنما کی شہادت پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک بار پھر سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔