
26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جسٹس منصور علی شاہ عدالتی معاملات سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً اس کا اظہار اپنے خطوط کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔
اس حوالے سے وہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور سپریم کورٹ میں کیسز کی سماعت کے دوران بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر بھی ان کے ہم خیال جج تصور کئے جاتے ہیں اور ہر موقع پر وہ ان کے ساتھ ہی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
یوں تو سینئر جج ہونے کے باوجود چیف جسٹس نہ بننے، آئینی بینچ کا حصہ نہ ہونے اور سپریم جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں غیر متعلقہ سمجھے جانے کی وجہ سے جسٹس منصور علی شاہ پہلے ہی اپنی طاقت کھو چکے ہیں۔
لیکن اب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی غیر موجودگی میں انہیں تفویض ہونے والے قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات میں بھی بڑی کمی کر دی گئی ہے۔
قائمقام چیف جسٹس کے اختیارت میں کمی:
سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس 29 جون کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوا جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شریک تھے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے قوانین کے مطابق کمیٹی کے چیئرپرسن جب چاہیں گے آن لائن یا فزیکل میٹنگ بلانے کے پابند ہوں گے۔
میٹنگ کیلئے کورم 2 ججز پر مشتمل ہوگا یعنی کمیٹی کے ایک جج میسر نہ ہوں تو پھر بھی میٹنگ ہو سکے گی۔
کمیٹی کیسز کیلئے ماہانہ یا 15 دنوں پر مشتمل بینچز کی تشکیل کرے گی۔ ایک بار بینچز کی تشکیل کے بعد اس میں تبدیلی نہیں کی جاسکے گی۔
کمیٹی کے چیئرپرسن یا کسی ممبر کی تبدیلی کی صورت میں پہلے سے تشکیل شدہ بینچز میں تبدیلی نہیں ہو پائے گی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے قوانین نے قائمقام چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی کردی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نئے رولز مطابق ۔۔ جب چیف جسٹس ملک سے باہر ہوں یا دستیاب نہ ہوں تو وہ خصوصی کمیٹی تشکیل دے سکتے ہیں، خصوصی کمیٹی جج کی بیماری، وفات، غیر موجودگی یا علیحدگی کی صورت میں ہنگامی طور پر بنچ میں تبدیلی کر سکتی ہے،ہنگامی فیصلوں کو تحریری طور پر ریکارڈ کرنا اور وجوہات درج کرنا لازمی ہوگا،ایسی تبدیلیاں کمیٹی کے اگلے اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: جسٹس سرفراز ڈوگر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ تعینات
کیا قوانین میں تبدیلی کا نشانہ جسٹس منصور تھے؟
قانونی ماہرین اور کورٹ رپورٹرز نے نئے قوانین پر سوالات اٹھا دیئے۔
صحافی احسن واحد نے لکھا کہ "پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے رولز سے واضح ہوتا ہے کہ چیف جسٹس یحیی خان آفریدی ملک سے باہر جانے پر بھی خوف کا شکار ہوتے تھے کہ کہیں قائمقام چیف جسٹس جو کہ زیادہ تر جسٹس منصور علی شاہ یا پھر جسٹس منیب اختر بنتے تھے انکی لنکا نہ ڈھا دیں”۔
احس واحد نے مزید لکھا کہ "وہ (جسٹس یحییٰ آفریدی) 26 ویں ترمیم جس کے تحت وہ چیف جسٹس بنیں کہیں اس کیلئے مسائل نہ کھڑے ہو جائیں ۔ کہیں انکو پبلک انٹرسٹ کو کوئی ٹھیس نہ پہنچ جائے تو پھر موصوف نے پبلک انٹرسٹ کے قدموں میں بیٹھ کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے نئے رولز بنائے تا کہ اگر وہ ملک سے باہر بھی ہوں تو اختیارات سب انکے پاس ہی رہیں۔”
کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے سوال اٹھاتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ "قائم مقام چیف جسٹس کے پر کیوں کاٹ دئیے گئے ؟ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خوف کس چیز کا ہے؟”
یاد رہے کہ چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی غیر موجودگی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بطور قائم مقام چیف جسٹس اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔
اگرچہ قائم مقام چیف کے اختیارات پہلے ہی بہت محدود ہوتے ہیں لیکن اب انہیں مزید کم کر دیا گیا ہے۔