کھیل

اکمل برادران کے عروج و زوال کی کہانی، قومی ہیرو قوم کیلئے میم کا سامان کیوں بنے؟

اکمل برادران   کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا، لیکن وہ ان صلاحیتوں کے صحیح استعمال کی راہ میں بھٹک گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ کیسے ہیرو سے زیرہ بنے۔

ایک تاریخ دان لکھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ بڑا آدمی تمام عمر بڑا ہی رہے۔ کچھ لوگوں کی زندگی میں بڑائی کا ایک لمحہ ہی آتا ہے اور بقیہ زندگی اس بڑائی کی نفی میں گزر جاتی ہے۔

کرکٹ کے دنیا میں بہت سے اوسط درجہ کے کھلاڑی آئے اور گئے ہیں۔ دنیا آج اگر انہیں یاد بھی کرے تو انہیں رنز اور وکٹ کے پیمانے پر تول کر یاد کرتی ہے۔

وہیں کچھ دوسرے کھلاڑی بھی ہیں جو بہت ٹیلنٹ رکھنے والے تھے۔ دنیا ان کی ریٹائرمنٹ کی بعد بھی انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتی ہے۔

پاکستان کرکٹ کو بھی کئی ایسے عظیم کھلاڑی میسر آئے ہیں جن کی نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا ہی گن گاتی ہے۔

وہیں چند ایسے ٹیلنٹ رکھنے والے کھلاڑی بھی ہیں جنہیں قدرت کی جانب سے موقع ملا لیکن اس موقع سے انہوں نے صحیح طریقہ سےاستفادہ نہ کیا۔

نتیجتاً وہی سٹار جو کبھی باعثِ فخر ہوا کرتے تھے، آجکل صرف مزاح اور میمز کا ذریعہ بن گئے ہیں۔

ایسی ہی کہانی اکمل برادران یعنی کہ کامران اکمل اور عمر اکمل  کی بھی ہے جنہیں قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا، لیکن وہ ان صلاحیتوں کے صحیح استعمال کی راہ میں بھٹک گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ کیسے ہیرو سے زیرہ بنے۔

اکمل برادران کے عروج و زوال کی کہانی:

 

کامران اکمل  کے  عروج کی کہانی:

 

2002 کی بات ہے جب پاکستان  کے دو مایہ ناز وکٹ کیپرز معین خان اور راشد لطیف کا کیرئیر ختم ہونے والا تھا۔

ایسے میں پاکستانی ٹیم کو ایسے وکٹ کیپر کی تلاش تھی جو اس خلاء کو پورا کرسکے۔

اسی تلاش کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کو کامران اکمل میسر آئے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے ۔

نومبر 2002 میں کامران اکمل کو زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں ڈیبیو کا موقع مل گیا۔

کامران اکمل شاید ابھی اس پایہ کے وکٹ کیپر تو نہ تھے جیسے معین خان اور راشد لطیف تھے، لیکن ان کی بیٹنگ ایسی تھی جو اپنے ان دو سینئرز سے کہیں آگے کی تھی۔

کامران ایسے بلے باز تھے جو ضرورت کے وقت جم کر کھلیتے تھے اور میچ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جارحانہ بھی کھیل لیا کرتے تھے۔

اپنے آپ کو بلے باز ثابت کرانے کیلئے کئی یاد گار اننگز بھی کھیلنا پڑتی ہیں اور ایسی اننگز کامران اکمل نے بھی کھیلیں۔

مثال کے طور پر مارچ 2005 میں پاکستان اور انڈیا کی ایک یاد گار ٹیسٹ سیریز تھی۔  انڈیا کے موہالی کرکٹ سٹیڈیم میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا تھا۔

 

مزید پڑھیں: شان مسعود کی چھٹی پر نیا ٹیسٹ کپتان کون؟

 

شدید دباؤ کا عالم تھا کیونکہ چوتھے دن دوسری اننگز میں پاکستان کی لیڈ صرف 45 رنز کی تھی جب ٹیم کے چھ کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔

اس وقت کامران اکمل نے پچ سنبھالی اور  عبد الرزاق کے ساتھ مل کر اس دن کوئی وکٹ نہ گرنے دی۔ یہی نہیں انہوں نے پانچویں دن کے کھیل کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔

میچ ڈرا ہوا لیکن 109 رنز کی شاندار اننگز کھلینے پر کامران اکمل کو مین آف دی میچ کا ایوراڈ سے نواز دیا گیا۔

ایک ایسا ہی میچ جنوری 2006 میں دیکھنے کو ملا ۔ کراچی میں کھیلا گیا یہ ٹیسٹ میچ بھی انڈیا کے خلاف تھا اور ایک بار پھر مشکل وقت تھا۔

عرفان پٹھان نے ہیٹرک کرتے ہوئے صفر رنز پر سلمان بٹ، یونس خان اور محمد یوسف جیسے پائے کے بلے بازوں کو پویلین بھیج دیا۔

اس کے بعد ٹیم نہ سنبھل سکی اور 39 رنز پر 6 وکٹیں گر گئیں۔ لیکن ایک بار پھر کامران اکمل نے شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور اس بار بھی انکے ساتھ عبدالرزاق تھے۔

کامران اکمل نے صرف 148 گیندوں پر 113 رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم کو سہارا دیا۔

یہی میچ بعدازاں سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان نے جیت بھی لیا۔ 113 رنز کی شاندار اننگز اور 6 وکٹوں کی بدولت کامران اکمل مین آف دی میچ قرار پائے۔

کامران اکمل ریکارڈ پر ریکارڈ بنارہے تھے ۔ وہ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا جوہر منوا رہے تھے۔

ٹی ٹونٹی ورلڈکپ 2009 میں وہ ایک اہم کھلاڑی ثابت ہوئے اور انہوں نے یہ کپ جیتنے میں پاکستان کیلئے اہم کردار ادا کیا۔

 

کامران اکمل کے زوال کی کہانی:

 

جب کامران اکمل یہ ریکارڈ بنا رہے تھے تو وہیں ان کے خاندان کیلئے ایک اور خوشی کی بات تھی کہ کامران کے چھوٹے بھائی عمر اکمل بھی اب انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنا سفر شروع کر چکے تھے اور آغاز میں ہی اپنی قابلیت کی بنا پر چھا گئے تھے۔

یہاں چھوٹے بھائی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کیا تھا کہ بڑے بھائی پر مشکلات بڑھنے لگی۔

اس کی ایک مثال آسٹریلیا کے خلاف 2010 میں سڈنی ٹیسٹ ، پاکستانی باؤلرز کی شاندار کارکرگی کی وجہ سے آسٹریلیا کی پوری ٹیم پہلی اننگز میں 127 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

پاکستان نے پہلی اننگز میں 333 رنز کی اننگز کھیلی یعنی کہ 206 رنز کی لیڈ۔

آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دینے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے لگا تھا ۔ لیکن پھر کامران اکمل آئے۔

انہوں نے آسٹریلیا کے مایہ ناز بلے باز مائیکل ہسی کے ایک نہیں ، دو نہیں ، چار چار کیجز ڈراپ کئے۔ ہسی نے اس کا فائدہ اٹھایا اور سنچری بنا ڈالی۔

نتیجتاً آسٹریلیا نے 381 رنز بنائے اور پاکستان کو جیت کیلئے  176 رنز کا ٹارگٹ ملا۔

ٹارگٹ تھوڑا تھا لیکن اب کی بار بیٹنگ نے وفا نہ کی اور پوری ٹیم دوسری اننگز میں 139 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

ایک جیتا ہوا میچ کامران اکمل کی وجہ سے ہار میں تبدیل ہو گیا تھا۔ کامران پر بہت تنقید ہوئے اور ان کی کیپر ہونے کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھنے لگے۔

اس کے بعد بدنام زمانہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل سامنے آگیا۔ کامران اکمل اگرچہ اس سکینڈل میں ملوث نہ پائے گئے  لیکن تمام کھلاڑیوں کی طرح شک کے دائرے میں ضرور لائے گئے ، بالخصوص سڈنی ٹیسٹ کی وجہ سے۔

اس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ان کی پکی جگہ اب کچی ہونے لگی ۔ اور ان کی جگہ سرفرازاحمد لینے لگے۔

تاہم ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں ان کی جگہ باقی تھی لیکن وہاں بھی جلد مسائل سامنے آنے لگ گئے۔ بالخصوص نیوزی لینڈ کے خلاف ورلڈکپ 2011 میں انہوں نے برتھ ڈے بوائے روس ٹیلر کے آسان کیچز چھوڑ کر انہیں سالگرہ کا تحفہ دے ڈالا۔

اس کےبعد ٹیلر نے 131رنزکی اننگز کھیل کر پاکستان کو عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا۔

یہ سوشل میڈیا کا دور تھا اور اب کی بار کامران اکمل شدید تنقید کی زد میں آئے ۔ آہستہ آہستہ ان کے ون ڈے کیرئیر کا سورج بھی غروب ہونے لگ گیا۔

اس کے بعد انہوں نے محنت کی لیکن پی ایس ایل کے علاوہ انہیں قومی ٹیم میں دوبارہ ویسے کم بیک کا موقع نہ مل سکا۔

 

عمر اکمل کے عروج کی کہانی:

 

کامران اکمل کے زوال کے ساتھ ہی عمر اکمل کے عروج کا دور شروع ہو رہا تھا۔ بلے باز ایسے کہ کسی بھی میچ کا پانسہ پلٹ دیں ۔

عمر اکمل نے فرسٹ کلاس کرکٹ سے انڈر 19 اور انڈر 19 سے انٹرنیشنل کرکٹ تک کا سفر بہت کم عرصے میں طے کیا جو ان کی قابلیت کا ثبوت تھا۔

پر اعتماد بیٹنگ کی بدولت انہیں ویرات کوہلی سے تشبیہ دی جانے لگی تھی۔ دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے نام ان کی شیدائی تھے۔

انہوں نے کئی اہم میچز میں قومی ٹیم کی فتح میں کردار ادا کیا اور مداح کی داد سمیٹی۔ لیکن ٹیلنٹ کی ناقدری بھی ساتھ ساتھ جاری رہی اور پھر یہ ہیرو اچانک سے قوم کیلئے میمز کا سامان بن گیا۔

 

عمر اکمل کے زوال کی کہانی:

 

عمر اکمل جتنا ٹیلنٹ رکھتے تھے اتنا ہی ان کے ڈسپلن کے مسائل بھی تھے۔ یہ ایک آدھ بار کی بات ہوتی تو انسان ہونےکا مارجن دے کر چھوڑ دیا جاتا لیکن یہ تسلسل ہی بن گیا تھا۔

یوں معلوم ہوتا تھا کہ عمر اکمل اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے۔

2010 کے بدنام زمانہ سڈنی ٹیسٹ کے بعد جب کامران اکمل کو ٹیم سے نکالا گیا تو  عمر اکمل نے بھی انجری کا بہانہ بنایا اور اگلے میچ کھیلنے سے معذرت کر لی۔

یہ بڑے بھائی سے اظہار یکجہتی تھا لیکن وہ پکڑے گئے اور اکمل برادران کو بھاری جرمانہ لگا اور عمر اکمل کے تنازعات کا آغاز ہوگیا۔

یہ سلسلہ تھا جو نہ تھمنے والا تھا۔ 2012 میں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے دوران امپائر کے فیصلے پر رد عمل دینے پر جرمانہ، 2014 میں ٹریفک وارڈن سے ہاتھا پائی اور بدتمیزی جیسے واقعات نے عمر اکمل کا امیج بہت خراب کیا۔

اسی طرح 2015 میں قائد اعظم ٹرافی کے ایک میچ کے دوران ڈانس  پارٹی میں شرکت، 2016 کی قائد اعظم ٹرافی میں ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی۔

ان کی پے در پے ڈسپلن خلاف ورزیوں پر ٹیم منیجمنٹ بھی اب پریشان تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ عمر اپنا ٹیلنٹ سنبھال نہیں پا رہے اور اس کو ضائع کرنے میں لگے ہیں۔

سیلکٹر، کوچز، کپتان اور مداح سب نے انہیں بارہا موقع دیئے لیکن عمر چانسر گنواتے رہے۔

پرفارمنس گرتی گئی اور پاکستان کا ویرات کوہلی اب مسئلہ بن گیا تھا۔

2017 عمر اکمل کے زوال کا سال تھا۔ اس میں چیمپئنز ٹرافی میں فٹنس کی وجہ سے انہیں واپس بھجوا دیا گیا اور ان کی غیر موجودگی میں ٹیم ٹورنامنٹ جیت بھی گئی۔

بعدازاں کوچ مکی آرتھر نے ان پر کئی الزامات عائد کئے جس کے بعد ان پر تین میچز کی پابندی اور جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

فروری 2020 میں عمر اکمل کو آخری جھٹکا لگا جب پی ایس ایل کا پانچواں ایڈیشن شروع ہونے سے قبل ہی انہیں معطل کر دیا گیا۔

الزام تھا کہ ان سےسپاٹ فکسنگ کیلئے ان سے رابطہ کیا گیا جسے انہیں قانون کے مطابق رپورٹ کرنا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔

یہ ایک سنگین غلطی کی اور اپریل 2020 میں اس غلطی کی پاداش میں عمر اکمل پر تین سال کی پابندی لگا دی گئی۔

بعدازاں یہ سزا کم ہو کر 12 ماہ ہو گئی لیکن جو شہرت کو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا تھا۔ اسے دوبارہ واپس کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔

ایک ٹیلنٹڈ کھلاڑی کا کیرئیر اپنی غلطیوں کی وجہ سے افسوسناک انجام کو پہنچ چکا تھا۔

اس کے بعد سے اب عمر اکمل صرف میمز کا سامان  ہیں۔ آپ کو آئے روز ان پر میمز بنتے دکھائی دیں گے۔

اکمل برادران کے عروج و زوال کی اس کہانی میں نئے کرکٹرز کیلئے کئے راز دفن ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ اگر وہ سیکھنا چاہیں تو۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button