
22 مارچ کو پی ٹی آئی رہنما ریحانہ ڈار نے جناح ہاؤس سیالکوٹ میں افطار کا اہتمام کیا۔ لیکن پنجاب پولیس نے دھاوا بول کر اس پروگرام کو رکوا دیا۔
یہی نہیں انصاف یوتھ ونگ سیالکوٹ کے صدر مہر خرم اغواء ہوئے جو کہ اس افطار کے منتظمین سے تھے۔
بعدازاں ان کا ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے افطار ڈنر اور پی ٹی آئی لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی کو ہی خیر آباد کہہ دیا۔
اس افطار ڈنر میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ بھی مدعو تھے لیکن انہیں بھی گرفتاری کی معلومات مل چکی تھیں جن کا اظہار انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے کیا۔
افطار ڈنر شرکت جرم، سلمان اکرم راجہ پر گرفتاری کے بادل منڈلانے لگے
سلمان اکرم راجہ نے اپنے ٹویٹ میں لکھاکہ "22 مارچ کو ریحانہ ڈار صاحبہ کی جانب سے سیالکوٹ افطار پر مدعو تھا۔ بڑی تعداد میں PTI دوستوں سے ملاقات طے تھی۔ ایک رات قبل نوجوان منتظمین میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا اور پارٹی سے دستبرداری کا وڈیو ریکارڈ کرایا گیا۔ میرے پہنچنے سے دو گھنٹے قبل ڈار خاندان کے ڈیرے کی ناکہ بندی ہو گئی۔
سلمان اکرم راجہ نے مزید لکھا کہ "مجھے اطلاع دی گئی کہ آمد پر گرفتاری یقینی ہے۔ مجھے دو دن بعد اسلام آباد میں خان صاحب کے مقدمے میں پیش ہونا تھا۔ گرفتاری سے مقدمے کو نقصان ہوتا۔ آج کے دور میں گرفتاری آسان ترین حربہ ہے ہر تنقید سے مبرا ہونے کا۔ تاہم یہ خان صاحب سے غداری ہوتی۔”
مزید پڑھیں : عمران خان کے بغیر دوسرا افطار ڈنر، شوکت خانم ہسپتال کو کتنی فنڈنگ ملی؟
سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کو 23 مارچ کی تقریب میں بھی دقت کا سامنا:
23 مارچ کی تقریب کا ذکر کرتےہوئے سلمان اکرم راجہ نے لکھا کہ ” 23 مارچ کو یوم پاکستان کے حوالے سے لاہور میں مدعو تھا۔ میرے موقع پر پہنچتے ہی تقریب پر دھاوا بولا گیا۔ بچوں کو وظائف نہ دینے دیئے گئے۔ تقریب منتشر کر دی گئی۔ CCTV کیمرے اتار دیئے گئے۔ ہم میں سے بعض کو فورا شناخت اور کسی بھی سیاسی ایکٹیویٹی سے روک دیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مشکل دور میں PTI کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پر سطح پر تنظیمی معاملات توجہ چاہتے ہیں۔ بہت سا تنظیمی خلا پر ہونا ہے۔ اتحاد سازی بھی ایک مشکل عمل ہے۔ قانونی دشواریاں اپنی جگہ ہیں۔ عمران خان صاحب جیل میں اس لئے ہیں کہ ریاست فسطائیت کی گرفت میں ہے۔
سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ خان صاحب کی رہائی کیلئے احتجاجی عمل کو آئین اور انسانی حقوق کیلئے ابھرتی مختلف تحریکوں سے جوڑنا ہو گا، قانونی و مزاکراتی عمل کو بھی جاری رکھنا ہو گا۔ نوجوانوں کے جوش کو دانش سے جوڑنا ہو گا۔ پارٹی کارکنان کی گرفتاری کی صورت میں قانونی اور معاشی معاونت کا نظام قائم کرنا ہو گا۔