روانی سے بہتا دریا، بادلوں کو بوسہ دیتے پہاڑ، معدنیات سے لیس کانیں، پھلوں پھولوں سے لدے پودے، آثارِ قدیمہ کی لمبی فہرست۔ یہ سب اکثر ایک ملک میں بھی اکٹھے میسر نہیں آتے لیکن قدرت کے خاص تحفے پاکستان کے ضلع میانوالی کے شہر کالاباغ میں یہ سب یکسر میسر ہیں. اس شہر کو پاکستان کا ترکی کاکہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
شہر کے دامن میں بہتا دریائے سندھ سیاحوں کا استقبال کرتا ہے ۔ اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ دریا کے اوپر سے جاتے ہوئے تاریخی پل کی راہ لیں یا دریا کے سینے کو چیرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جائیں۔
شہر میں داخلے کیلئے سیاحت شرط نہیں ہے ، یوں آپ اپنے کسی کام سے بھی شہر کو آ سکتے ہیں۔لیکن ایک بار شہر میں داخل ہونے کےبعد آپ کا سیا حت سےناطہ ضرور جڑ جائے گا۔
نمک کی کوئی کان ہو، یا دریا کنارے آباد کوئی تاریخی عمارت،ا گر آپ یہاں اپنی تصویر اتار کر حلقہ احبا ب میں اس کی تشہیر کریں تو لوگ آپکی سیاحیت کو ضرور داد دیں گے۔
نمک کی کانوں کی وجہ ہے کہ شاید یہاں کےنمکین کھانوں میں لذت ہے لیکن شہر کی شہرت میٹھے کی وجہ سے ہے۔ یہاں کا مشہوردیسی گھی کا حلوہ اگر آپ کسی عزیز کو تحفتاً بھجوا ئیں تو عین ممکن ہے کہ وہ دوستی کے رشتے کو مدنظر رکھتے آپ سے پھر مانگ کردے۔
شہر ابھی جدت کی ملاوٹ سے تھوڑا پاک ہے اس لیئے اگر مکمل شہر کا ایک چکر لگائیں تو آپ کو فطرت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ ایک دن اس شہر کی زیارت کو وقف کرنے والا شخص شام ڈھلتے ہی ہر سیاح کو یہ پیغام دیتا ہے کہ “ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ”۔
اگر کوئی ماہر تعمیرات کبھی بغرض زیارت شہر کا رخ کرے تو اکثر اپنی زبان سے ذہن میں آئے خیالات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” اگر اس دریا کنارے یہ ترقی کر لی جائے تو شہر ترکی کا متبادل بن جائے گا”، “اگر شہر کے ان آثار قدیمہ پر تھوڑی سے توجہ کی جائے تو یہ دوبارے سے نکھر آئیں گے”۔پر یہ شہر جس توجہ کا طلب گار وہ شاید آج تک اس کے حصے نہیں آ سکی۔
مزید پڑھیں:بیانیےکی دوڑ میں آپ کے ایک کمینٹ کی اہمیت
کالاباغ کو ارباب اختیار سے گلے شکوے بھی ہیں ،جن کا ازالہ کر لیا جائے تو شہر کی رونق دوگنی ہو جائے اور حقیقی طور پر ترکی بن جائے۔ پر شہر کی داد رسی نہ ہونے سے کبھی کبھی گمان گزرتا ہے کہ جیسے ہم اللہ رب العزت کی نعمت کی ناقدری کر رہے ہوں۔
بے توقیری کے باوجود میں یہ کھلے دل کا شہر ہے۔شہرِ کالاباغ نے اپنے ایک حصے کو ڈیم کیلئے بھی وقف کر رکھا ہے تاہم اپنوں کی نااتفاقی اور بیرونی سازشوں کی باعث یہ حصہ کبھی کبھی کھنڈر کا منظر دینے لگتا ہے۔ اس کی قدر کر لی جاتی تو آج ملک کی پریشانیاں میں قدرے کم ہوتیں۔ بہرحال پانی ابھی سر سے گزرا نہیں ہے۔