وہ صحافی جس نے عدالت کے سنانے سے پہلے فیصلہ لیک کردیا

گزشتہ روز عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدت میں نکاح کے کیس میں 7،7 سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ کازلسٹ کے مطابق یہ فیصلہ 1 بجے سنایا جاناتھا۔ تاہم محفوظ فیصلے سنانے میں پاکستانی عدالتوں کے سرپرائز دینے والا معاملہ پھر جاری رہا۔
عدالتی عملے نے ابتدائی طور پر صحافیوں کو بتایا کہ جج صاحب دن 2 بجے فیصلہ سنائیں گے تاہم کورٹ رپورٹرز کے مطابق عدالت نے فیصلہ 3 بج کر 33 منٹ پر سنایا۔ صحافی حسین احمد چوہدری کےمطابق اڈیالہ جیل میں میڈیا کیلئے سب سے آخری کیبن تھا جس میں جج کے فیصلہ سناتے ہوئے آواز نہیں آ رہی تھی۔ میڈیا کو بھی عمران خان نے اونچی آواز میں فیصلے کا بتایا۔
یہی وجہ تھی کہ ثاقب بشیر کے مطابق میڈیا پر خبر 3 بج کر 42 منٹ پر تقریباً دس منٹ بعد بریک ہوئی۔ لیکن صحافی حسن ایوب خان نے 3 بج کر 21 منٹ پر ہی وہ آرٹیکل ٹویٹ کیا جس کے مطابق عمران خان کو سزا ہوئی۔


حسن ایوب خان نے فیصلہ آنے سے قبل ایک ٹویٹ کی جس میں صرف 496 لکھا گیا۔ صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ 3 بج کر 21 منٹ پر 496 لکھنا دلچسپ ہے۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا حسن ایوب نے جج صاحب کے سنانے سے پہلے ہی فیصلہ لیک کردیا؟

مزید پڑھیں: عدت کیس سزا: علماء عمران خان کے حق میں‌آگئے

تاہم ایک صارف نے جواب میں لکھا کہ یہ کیس ہی دفعہ 496 کا تھا اسلیئے سزا جزا اسی کے تحت ہونا تھی۔ یوں فیصلہ لیک کردیا کی بات درست نہیں ٹھہرتی۔
دوسری جانب علماء کی جانب سے وقفے وقفے سے اس فیصلے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ علامہ راجہ ناصر نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ پر ٹویٹ کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ : انا للہ وانا الیہ راجعون قانون و انصاف کے نام پر اخلاقی ، سیاسی، سماجی اقدار اور شرعی احکامات کی جس انداز میں تضحیک کی جا رہی ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔انا کی تسکین کے لیے کسی خاندان کی عزت کو پامال کرنا کہاں کا انصاف ہے ؟ شرعی احکامات کی من پسند توضیح کرنے والوں کی دنیا و آخرت میں رسوائی ہے۔عدلیہ کا باوقار تشخص اس کے منصفانہ فیصلوں سے مشروط ہے۔اگر عدالتوں کے فیصلوں میں انصاف کی بجائے سفاکیت جھلکتی رہی تو عوام کا اس نظام سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں