اہم خبریںپاکستان

لائن آف کنٹرول پر رہنے والے پاکستانی شہریوں کی زندگی جہنم کیوں بنتی جا رہی ؟

آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک رہنے والے شہریوں کی زندگی ہر وقت  غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے جنت نظیر وادی کہلاتی ہے۔

لیکن اس جنت نظیر وادی پر ہر وقت ایک خطرہ منڈلاتا رہتا ہے اور یہ خطرہ ہوتا ہے دشمن کے بے وقت حملے کا۔

آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے میں ایل او سی (LOC)  یعنی کہ لائن آف کنٹرول کے نزدیک رہنے والے شہریوں کی زندگی ہر وقت  غیر یقینی صورتحال کا شکار رہتی ہے۔

اِدھر ہمارے نفسیاتی ہمسائے کا جوش بڑا اور ادھر آزاد کشمیر میں فائرنگ ، گولہ باری شروع۔

یوں لائن آف کنٹرول پر رہنے والے شہری خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 

ہر وقت کا جانی و مالی نقصان:

 

لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے آزاد کشمیر کی شہریوں کا جان و مال ہروقت داؤ پر لگا ہوتا ہے۔

حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے پہلگام حملے کے بعد جب پاکستان پر حملہ کیا گیا تو اس میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

دشمن کی جانب سے رات کی تاریکی میں کئے گئے ان حملوں میں  جہاں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا وہیں گھروں ، مساجد اور دیگر بلڈنگز کو بھی بری طرح نقصان پہنچا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا کی جانب سے آزاد کشمیر میں معصوم آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ انڈیا فالس آپریشن کے آڑ میں اکثر ایسی کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔

آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے میں لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے شہریوں کیلئے گھروں کی بار بار تعمیر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

اسی طرح کسی بھی وقت دشمن کی ممکنہ گولہ باری اور حملے کے بعد شہریوں کو جانی نقصان سے بچنے کیلئے نقل مکانی بھی کرنا پڑتی ہے ۔

 

کاروبار اور معمولاتِ زندگی کی تباہی:

 

بھارتی گولہ باری سے نہ صرف جانی نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ کاروبار کی تباہی کا باعث بھی بنتا ہے۔

بھارتی گولہ باری اور شیلنگ/فائرنگ کی زد میں آکر مویشی میں ہلاک ہو جاتے ہیں جو کہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔

اسی طرح حملے کے دوران بعض اوقات کاروباری مرکز کی تباہی سے شہری زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ معمولات زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بے یقینی کی صورتحال میں یا تو مکمل بند رہتے ہیں یا جزوی طور پر بحال رہتے ہیں ۔

یوں معمولاتِ زندگی بری طرح جمود کا شکار ہو جاتےہیں۔

 

مسلسل کشیدہ حالات میں رہنے سے نفسیاتی نقصانات:

 

ہر وقت حالت ڈر میں رہنے سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے شہریوں بالخصوص چھوٹے بچوں کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔

ہر وقت کا خوف انسانی نفسیات کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے۔ اگلے لمحے کی بے یقینی شہریوں سے سکون کے لمحات چھین لیتی ہے۔

 

مزید پڑھیں: غزہ میں بھوک سے بچے ڈھانچوں میں تبدیل، اسرائیلی کارروائیوں سے لاشوں کے ڈھیر

 

حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے جب معصوم شہریوں کا نشانہ بنایا گیا تو یہ رات کا وقت تھا۔

رات کے اس پہر عموماً لوگ سوئے ہوتے ہیں اور سوتے ہو ئے لوگ جب بمباری کے زیر اثر آنکھ کھولیں تو ان کی نفسیات پر پڑنے والا برا اثر ذہنی صدمے کی شکل اختیار کر لےگا۔

 

زخمی ہونے سے زندگی بھر کی محتاجی تک کا سفر:

 

لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں اکثر آپ کو ایسے لوگ ملیں گے جو دشمن کی بزدلانہ کارروائی میں زخمی ہوئے لیکن یہ زخم ان کیلئے زندگی بھر کا روگ بن گیا۔

کوئی آنکھوں کے نور سے جاتا رہا تو کوئی ہاتھ، پاؤں کٹوا بیٹھا۔

اچانک ایک چلتا پھرتا انسان جب تادمِ مرگ بستر پر ڈھیر ہو جائے تو اس کی مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اسی طرح بزرگ، اور ایسی مریض جو بستر پر ہوں  ، اچانک نقل مکانی کی صورت میں مزید نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔

 

انفراسٹرکچر کی تباہی:

 

دشمن کے حملوں کے دوران اکثر سڑکیں ، پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حکومتوں کے ہوش میں آنے اور دوبارہ تعمیرمیں اکثر سالوں لگ جاتے ہیں۔

ایسے میں ہنگامی حالات میں نقل و حرکت اور مریضوں کی منتقلی میں مشکلات پیش آتی ہیں جن سے اموات کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔

 

عوام حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی منتظر:

 

لائن آف کنٹرول کے قریب بسنے والے شہری  ایک مستقل خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔

جان و مال کا ضیاع، گھر کی تباہی اور کاروبار کی تباہی کا خطرہ ہر وقت شہریوں کو بے بسی کی تصویر بنا کر رکھتا ہے۔

حکومتوں کو چاہیے کہ ایسے علاقوں میں بسنے والے افراد کی حفاظت کیلئے اقدامات کرے۔ جنگی حالات کی صورت میں ان کا دست و بازو بنے۔

اسی طرح بین الاقوامی ادارے بھارت کو اس بات کا پابندبنائے کہ وہ بین الاقوامی قوانین پر عمل کرتے ہوئے آبادی کو نشانہ بنانے سے باز رہے۔

صرف کاغذی نہیں، عملی اقدامات ہی ایل و سی کے قریب بسنے والے شہریوں کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button