ٹرمپ کے صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد سے جہاں امریکیوں کی نظریں اقتدارکی منتقلی پر ہیں وہیں دوسرے ممالک اس بات پر غور کررہے ہیں کہ ان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کیا تبدیلی آئے گی؟
پاکستان میں جہاں عمران خان کی رہائی کو ٹرمپ کے تعاون سے جوڑا جارہا ہے ، وہیں بنگلہ دیش میں بھی اب یہ سوچ شروع ہو گئی ہےکہ کیا ٹرمپ حکومت سنبھالنے کے بعد بنگلہ دیش پر کوئی اثر ڈال سکتےہیں۔
ٹرمپ کی جیت سامنے آنے کے بعد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار تو کر دیا، لیکن ماہرین اس حوالے سے چہ مگوئیوں میں مصروف ہیں کہ کیا امریکہ بنگلہ دیش میں جاری عبوری حکومت کو صرفِ نظر کر دیں گے اور کیا ڈاکٹر یونس کے ٹرمپ بارے ماضی کے خیالات اس تعلق پر اثر انداز نہیں ہوں گے؟
اگست میں حسینہ واجد کے استعفیٰ اور ملک سے فرار ہونے کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کی سربراہی ڈاکٹر محمد یونس نے سنبھالی لیکن اب تک وہاں دوبارہ انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیشی طلباء کے من پسند عبوری حکومت کے سربراہ کون ہیں
یوں اب ماہرین یہ گمان کر رہےہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ عبوری حکومت کو جلد انتخابات کی طرف جانے پر مجبور کرسکتی ہے اور اس بات پر عملدرآمد کرانے کیلئے مختلف امدادی پروگراموں کی رقم کم کرنے جیسے حربے آزما سکتی ہے جو عموماً سپر پاورز کا شیوہ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس بارے یہ بھی رائے ہے کہ وہ ٹرمپ کی مخالف جماعت ڈیمو کریٹس کے ساتھ کھڑے ہیں اور ماضی میں انہوں نے 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے بعد مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
اسی طرح ٹرمپ بارے بھی یہ بات کی جاتی ہے کہ بنگلہ دیشی امریکی وفد نے جب ٹرمپ سے ملاقات کی تو ٹرمپ نے ڈاکٹر یونس بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈھاکہ کا مائیکرو کریڈٹ آدمی کیا ہے۔
اس لئے اب بنگلہ دیش کی نظریں بھی ٹرمپ کی پالیسیوں پر لگی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کی حسینہ واجد بارے کیا پالیسی ہوگی اس بارے بھی کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔