آج کل ہر گھر، ہر گلی، ہر محلے ، ہر بازار میں آپکو چھوٹے بچے ٹک ٹک والا کھلونا پکڑے نظر آرہے ہوں گے۔ دھاگے کے ساتھ بندھے دو پلاسٹک کی گیندوں کو ایک مخصوص انداز میں آپس میں ٹکرایا جاتا ہے جس سے ایک ریدھم بنتا ہے۔
زیادہ شور پیدا کرنا اس کھلونے کا مقصد نہیں، بلکہ اس کی کامیابی یہ ہے کہ آپ کتنی دیر تک یہ ریدھم بنائے رکھتے ہیں اور آپکی سپیڈ کتنی ہے۔ جو زیادہ سپیڈ اور زیادہ دیر تک یہ مومنٹم بنائے رکھے گا، وہ جیت جائے گا۔
جہاں کچھ بزرگ بچوں کے ہاتھ میں موبائل کی بجائے کسی کھلونے کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف اس کی ٹک ٹک سے پریشان لوگ اس پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کھلونا کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔ یہ 1960 اور 1970 کی دہائی کا کھلونا ہے جب یہ امریکہ میں بنایا گیا تھا۔ تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک وقت میں اسے امریکہ میں جان لیوا کھلونے کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
ہم اسے ٹک ٹک والا کھلونا کہتے ہیں لیکن اصل میں اس کا نام کلیکر ہے۔ 1970 میں کلیکر مقبول ہو گر دنیا بھر میں پھیل گئے تھے۔ اس وقت اس کی بالز کو ایک خاص قسم کے پلاسٹک سے بنایا جاتا تھا جو تھوڑے دنوں میں ٹوٹ جاتا تھا اور اس کے سپیڈ میں کٹے ہوئے ٹکڑے بچوں کیلئے ایک ہتھیار کا سا کام کرنےلگے تھے اور یوں بچوں کیلئے ترتیب دیا جانے والایہ کھلونا بچوں کیلئے جان لیوا ثابت ہونے لگ گیاتھا۔
مزید پڑھیں: موٹر وے پر ٹائر کیوں پھٹتے ہیں؟
1974 میں امریکہ میں کلیکر کی بڑی کھیپ پکڑی ضبط کر لی گئی تھی جس پر اسے بنانے والوں کمپنی نے عدالت سے رجوع کر لیا۔
عدالت میں کمپنی نے مؤقف اپنایا کہ اس میں کیا خطرہ ہے، صرف کھلونا ہی تو ہے۔ تاہم عدالت نے اس کے مکینیکل خطرے کے پیش نظر اس کی ضبطگی کو درست قرار دیا۔
اس کے بعد یہ کھلونا امریکہ سے تو آہستہ آہستہ اٹھ گیا لیکن یہ دنیا میں اب بھی اس ایجاد سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکا۔
اب اس کی بالز کو جس پلاسٹک سے بنایا جارہا ہے وہ دھات بظاہر تو کوئی جان لیوا نہیں۔ مگر تیز گھمانےکی صورت میں ہاتھ سے نکلنے پر یہ کسی پاس کھڑے شخص کا اچھا خاصا نقصان کر سکتی ہے خاص طور پر اگر اسکی آنکھوں پر جا لگے۔