تعزیت

تعزیت اور غمگساری کے آداب

انسان کو غم تو کئی قسم کے پیش آتے ہیں لیکن جہاں کسی کی وفات کا معاملہ ہو وہاں اہل خانہ پر بالخصوص گھر کے سربراہ پر یا کرتا دھرتا افراد پر دوہری افتاد ہوتی ہے۔
ایک تو جانے والے کا دکھ پھر اوپر سے ضروری انتظامات کا معاملہ بھی درپیش ہوتا ہے، ان حالات میں پرسہ دینے والے کی فون کال سننا یا پیغامات سننا یا پڑھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تعزیت اور غمگساری کے آداب بھی ہوا کرتے ہیں۔
سماجی تعلقات نبھانے کیلئے اکثریت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح فٹافٹ میری حاضری لگ جائے اور اس موقع پر میری ہمدردیاں فوراً سن لی جائیں، اس میں کھوٹ یا دکھاوا بیشک نہ ہو پھر بھی یہ اہل خانہ پر ایک ایکسٹرا برڈن کی صورت بن جاتا ہے، اس سے گریز کرنا چاہئے۔
اگر آپ کو اطلاعی میسیج آیا ہے تو فوراً کال کرنے یا کال پر رونا دھونا کرنے یا امی سے بات کر لیں، اب ابو سے بات کر لیں، ایسا کرنے کی بجائے ایک جوابی میسیج کرکے خاموشی اختیار کریں، اگلوں کو سنبھلنے کا موقع دیں۔
پھر اگر تدفین میں شرکت کر سکتے ہیں تو ضرور پہنچ جائیں یا قل خوانی پر پہنچ سکتے ہیں تو ضرور جانا چاہئے اور ایک بار متعلقہ افراد کو گلے لگائیں، ان کو مختصر اور مناسب الفاظ میں دلاسہ دیں اور سائیڈ پر ہو جائیں۔
اگر آپ تدفین یا قل خوانی میں جا رہے ہیں تو صاحب خانہ سے بار بار ایڈریس پوچھنا، میں یہاں کھڑا ہوں میں وہاں ہوں اس تکرار کی بجائے کسی اور جانے والے کا انتخاب کریں اور اس سے ایڈریس تک پہنچنے کی مدد حاصل کریں اور بعد میں صاحب خانہ کو پورا قصہ بھی مت سنائیں کہ وہاں سے آگے سمجھ نہیں آرہی تھی، میں یہاں چلا گیا میں وہاں پہنچ گیا۔

مزید پڑھیں:22 برس بعد کوہ پیما کی لاش مل گئی

ایک واقعہ ہو چکا ہے اب اس کی تفصیل پوچھنا اہم نہیں ہے کیونکہ آپ نے ان معلومات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا اسلئے ارد گرد سے جتنی معلومات مل جائیں اس کو کافی سمجھیں، اہلخانہ سے پوری بات پوچھنا سمجھنا پھر اس پر سوالات بھی کرنا یہ تعزیت کا ناگزیر حصہ نہیں ہے، آپ نے تو ایکبار پوچھنا ہے لیکن اہلخانہ کو ایسے پانچ سو لوگوں کو سنانا پڑتا ہے اسلئے اجتناب کرنا چاہئے۔
پھر وہاں پہنچ کے انتظامات کے سلسلے میں آپ جو مدد کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں، اپنے طور پر کہیں پیسہ خرچنا چاہیں تو بھی کر سکتے ہیں مگر کوشش کریں کہ ہر موقع پر بلاوجہ کے مشورے مت دیں۔ ممکن ہے اہلخانہ کو مجبوراً کوئی مشورہ ماننا پڑے جو بلاوجہ ان کے اخراجات بڑھانے کا باعث بن جائے۔وہاں کوئی انتظامی بات ہو رہی ہے تو اس کے گرد گروہ لگا کے کھڑے ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی البتہ آپ کسی کام کے ماہر ہیں یا آپ کے پاس کوئی ماہر ٹیم یا سروسز دینے والے موجود ہیں اور آپ اپنے خرچے پر وہ کام کرنا چاہتے ہیں تو صاحب خانہ سے اجازت لیکر کر سکتے ہیں۔
فوتگی کے موقع پر مختلف مذہبی رجحانات والے لوگ موجود ہوتے ہیں، وہاں پر اگر کوئی مذہبی رسم ہو رہی ہے تو اس کی مخالفت مت کریں، آپ اس میں شرکت نہیں کر سکتے تو خاموشی سے ایک طرف ہو جائیں۔ تعزیت کے ان آداب پر عمل کر کے آپ حقیقی معنوں میں‌غمگساری کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں