پاکستان میں آج سال 25-2024 کے لیے وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا۔ معاشی اشاریے اور اہداف کیا ہیں اور خسارے کیا ہونگے اس سے عوام کو کوئی غرض نہیں۔ عام آدمی کا سوال اسے ملنے والے ریلیف پر ہے۔
اس بجٹ میں تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا اعلان تو کر دیا گیا لیکن دوسری طرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس تقریباً ڈبل کر کے اور ضروریات زندگی پر مزید ٹیکس لگا کر یہ اضافہ بے معنی کر دیا گیا ۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا طبقہ تنخواہ دار طبقہ ہے لیکن حکومت اس طبقے کو سہولیات دینے کے بجائے اس سے ہی بار بار ٹیکس کے جال میں پھنساتی رہتی ہے۔
کسی بھی حکومت کو اپنی معاشی اہداف پورا کرنے کے لیے مختلف شعبوں پر ٹیکس لاگو کرنا ہوتا ہے ایسا کرنے کے لیے حکومت کو ان تمام طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوتا ہے جن کی آمدن تو بہت زیادہ ہے لیکن وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے۔
ان میں کہیں حکمران طبقہ شامل ہے جو قانونی طریقوں سے یا پارلیمنٹ میں قانون سازی کر کے خود کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے اور کہیں وہ کاروبار موجود ہیں جنہیں آج تک ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا گیا جیسا کہ دودھ گوشت وغیرہ۔
مزید پڑھیں: قسطوں میں بجلی کا بل دینے والوں کیلئے بری خبر
یہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس ہر سال ٹیکس کو بڑھانے کا یہی طریقہ ملتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگا دو۔ جہاں رواں سال پیش ہونے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کوئی واضح ریلیف نہیں ملا وہیں ابھی ایک خطرہ اور بھی باقی ہے جسے ہم منی بجٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
پاکستان کے ٹیکس نظام کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوام کو حکومت پر کسی طور اعتبار نہیں ہے اور عوام براہ راست ٹیکس نہیں دیتی۔ حکومت یہ کام ضروریات زندگی جیسا کہ کھانے پینے کی اشیاء اور پیٹرول وغیرہ پر ٹیکسز لگا کر پورا کرتی ہے ۔
اگر حکومت اسی پالیسی پر چلتی رہی کہ جو ٹیکس دے رہا ہے اس پر مزید ٹیکس لگاتے جاؤ اسی کو نوٹسز دیتے جاؤ اسی کو دھمکاتے جاؤ تو ہم کبھی اپنا ٹیکس ہدف پورا نہیں کر سکیں گے۔
ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کا طریقہ کار یہی ہے کہ کوئی مقدس گائے نہ ہو۔ حکمران اورامراء کے طبقے سمیت ہر کوئی ٹیکس نیٹ میں ہو۔
“تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس: حکومت کو اور کوئی نظر نہیںآتا؟” ایک تبصرہ