
یوں تو بلوچستان میں کوئی دن خون کی ہولی کے بنا نہیں گزرتا لیکن 26 اگست سوموار کا دن اس حوالے سے بہت خطرناک تھا کیونکہ ایک ہی دن میں 70 کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ان میں سے کچھ افراد کو صرف اس وجہ سے گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا گیا کہ ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جبکہ سیکیورٹی فورسز اور دیگر کئی مقامات پر حملوں میں اموات کی تعداد 70 تک پہنچ گئی، جس میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔
ایسے وقت میں کہ جب ملک لہو لہان تھا پارلیمنٹ میں اجلاس ہو رہا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اجلاس میں پے در پے دہشت گردی کے ہونے والے واقعات پر بحث کی جاتی اور اس کا کوئی حل نکالا جاتا۔
وفاقی وزیر داخلہ اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے لیکن وفاقی وزیر داخلہ بھی بنگلہ دیش سے کرکٹ میچ ہارنے پر پریس کانفرنس کرنے آئے اور وہیں سے مذمت کر کے چلتے بنے جبکہ دوسری جانب پارلیمنٹ میں ہنسی مذاق چلتا رہا۔
شیر افضل مروت اپنے مزاحیہ انداز میں بتا رہے تھے کہ ان کے گھر پر پولیس نے دھاوا بولا تو ایک پولیس اہلکار کی شرٹ کھینچی تو وہ ٹرٹرٹرر کر کے پھٹ گئی۔ اس پر سپیکر قومی اسمبلی ان سے دوبارہ یہی سننے کی فرمائش کر رہے تھے کہ شرٹ کیسے پھٹی ۔ اس دوران ایوان میں قہقہے تھے جو کہ ایک سانحے کے روز بہت تکلیف دہ تھے۔
مزید پڑھیں:بلوچستان میں23 افراد قتل، جرم پنجابی ہونا
سینیئر سیاستدان محمود خان اچکزئی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ آج اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا مگر اجلاس میں بلوچستان پر بات ہی نہیں ہوئی۔ 23 لوگ قتل ہوئے اور ہسپتالوں میں تعداد اس سے زیادہ ہے۔ نہ کوئی استعفی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔ مجھے دکھ ہوا کہ پارلیمنٹ میں آج لوگ اجلاس کے دوران ہنس رہے تھے۔
صحافی ثاقب بشیر کا بھی کہنا تھا کہ واقعی اتنے سوگوار ماحول میں پارلیمنٹ میں ہنسی خوشی دیکھ کر افسوس ہی ہوا ۔ جن کے گھر بکھر گئے جن بے گناہ پیارے چلے گئے اسمبلی اجلاس میں ایسے لگا جیسے ان کو وہ دکھ درد تکلیف نہیں جو ہونی چاہیے ۔ اگر سمجھا جائے تو آج کا واقعہ تو بہت بڑا سانحہ ہے لیکن حکومتی بیانات سے ہی کام چلایا گیا۔