
ہم آزاد پیدا ہوتے ہیں، پھر ہماری تعلیم، تربیت ، تن آسانی اور معاشرتی دباؤ ہمیں محدود کرتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنی آزادیوں سے دست بردار ہو کر کوہلو کے بیل بن جاتے ہیں۔
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی.
(منیر نیازی)
جب ہم دنیا میں وارد ہوتے ہیں تو بہت متجسس ہوتے ہیں. ہر چیز کو چھوتے ہیں، چھیڑتے ہیں، زبان سے لگا کے سونگھتے ہیں، ناک سے چھو کے چکھتے ہیں، ہر رنگ ہمیں لبھاتا ہے، ہر شخص سے دوستی کرنا چاہتے ہیں. ہماری کوئی محدودات نہیں ہوتیں۔
لیکن لڑکپن کی سرحد پار کرنے تک ہم بہت سا تجسس کھو دیتے ہیں اور جوانی کی دہلیز تک آتے ہم پرڈیکٹیبل ہو جاتے ہیں۔جاب، شادی اور پھر بچے . پھر باقی کچھ نہ بچے، بچے تو بس کوہلو کا بیل بچے، جو آنکھیں موندے ، سر جھکائے، بوجھ اٹھائے، رمکوں رمکوں چلتا جائے۔
زندگی کی رنگا رنگی، اسکا مزا ، جوش ، ولولہ ، تازگی، اور خوشی ، تبدیلی اور نئے پن میں ہے. لگے بندھے رستوں پہ، طے شدہ ضابطوں کا پلو پکڑے مسلسل سفر کرنے والی یکسانیت زہرِ قاتل ہے۔ ایک دیمک ہے جو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے، ہماری ہڈیاں تک چبا جاتی ہے۔
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
گر سفر نہیں کرتے
گر مطالعہ نہیں کرتے
گر زندگی کی آوازیں نہیں سنتے
گر خود کو نہیں سراہتے
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب خود توقیری کو قتل کرتے ہو
جب دوسروں کو اجازت نہیں دیتے
کہ وہ تمہاری مدد کر سکیں
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب اپنی عادتوں کے اسیر بن جاتے ہو
ہر روز لگے بندھے رستوں پر چلنے رہتے ہو
اگر، اپنے معمولات نہیں بدلتے
اگر مختلف رنگ نہیں پہنتے
اگر، اجنبیوں سے باتیں نہیں کر تے
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے، ہو
جب عشق سے اور اسکی ہنگامہ خیزیوں سے جان چھڑاتے ہو
اور ان سے جہنیں دیکھ کر تمہاری آنکھیں روشنی سے دمک اٹھتی ہیں
دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں
تم دھیرے دھیرے مر، جاؤ، گے
اگر خطرہ مول نہ لو گے
یہ جاننے کو
کہ نامعلوم کتنا محفوظ ہے
اگر خوابوں کی تلاش میں نہ نکلو گے
زندگی میں کم از، کم اک بار
منطق سے نہ بھاگو گے
خود کو قطرہ قطرہ مرنے نہ دینا
خوش، رہنا نہ بھولنا.
(پابلو نرودا)
ہم جو صلاحیتیں استعمال نہیں کرتے انہیں زنگ لگ جاتا ہے، جن الفاظ کو نہیں برتتے انہیں بھول جاتے ہیں، جن لوگوں سے نہیں ملتے وہ اجنبی بن جاتے ہیں۔ جن جذبات کا اظہار نہیں کرتے وہ سرد پڑ جاتے ہیں، جن رستوں پر نہیں چلتے وہ گھاس کے نیچے گُم ہو جاتے ہیں، جو رنگ نہیں پہنتے وہ عجیب لگنے لگتے ہیں۔ ہم مجموعی طور پر تو زندہ رہتے ہیں لیکن ہمارے کچھ حصے مر جاتے ہیں، جن پہلوؤں کو استعمال نہیں کرتے وہ خشک پتوں کی طرح مر کر ہمارے اندر دفن ہوتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دنیا
غور کریں کہیں آپ نے خود کو کسی نظر نہ آنے والے پنجرے میں قید تو نہیں کر لیا؟
سوچیں کہیں آپ چند رنگوں، چند کھانوں، چند جگہوں، چند سوچوں، کچھ فقروں اور چند لوگوں تک محدود تو نہیں ہو گئے ؟ کہیں آپ وہی چند لطیفے بار بار تو نہیں سنا رہے؟ انہی جگہوں پر ، انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر انہی موضوعات پر وہی باتیں اسی انداز میں بار بار تو نہیں دوہرا رہے؟
آخری بار کوئی نیا رنگ کب پہنا تھا؟ کوئی نیا ذائقہ کب چکھا تھا؟ کوئی نیا دوست کب بنایا تھا؟ کوئی نیا شعر کب یاد کیا تھا ؟ کوئی لطیفہ کب سنایا تھا؟ اپنی سوچ میں آخری تبدیلی کب لائے تھے؟ کسی نئی جگہ سیر کے لئے کب گئے تھے؟ کوئی نئی خوشبو کب لگائی تھی؟ کوئی نئی عادت کب اپنائی تھی؟ کوئی نیا گیت دوستوں کے ساتھ کب گنگنایا تھا؟
بوریت ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے اور ریپیٹشن اس کی وجہ ہے. جب آپ پہلی بار لوگوں کو لطیفہ سناتے ہیں تو وہ بلند قہقہ لگاتے ہیں، دوسری بار انہی لوگوں کو وہی جوک سناتے ہیں تو وہ بس مسکراتے ہیں ، تیسری بار وہ مذاق پھیکا پڑ جاتا ہے اور چوتھی بار لوگ رُخ موڑ لیتے ہیں. ہر روز کچھ نیا کرنا اور مسلسل کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہنا ہی ہمیں ذہنی اور جذباتی طور پر زندہ رکھتا ہے ورنہ ہم بوریت کا شکار ہوجاتے ہیںاور دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہیں۔
تحریر: تنویر گھمن