پاکستان میں افغان پناہ گزین دوہری اذیت میں مبتلا
پاکستان نے کئی دہائیاں اپنے افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کی۔ لیکن اب ریاستِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجا جائے ۔

جنگ ، بدامنی اور عدم استحکام سے پسے ہوئے افغان مہاجرین کو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں پناہ حاصل تھی۔
پاکستانیوں سے ثقافتی اور مذہبی مماثلت کی وجہ سے افغان مہاجرین کو یہاں بسنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ پشتو بولنے والے علاقوں میں زبان کی مماثلت نے انہیں اور جلدی اپنے پن میں ڈھلنے کا موقع دیا۔
روس کے خلاف افغان جہاد کے دور میں پاکستان میں آنے والے مہاجرین کی تو اب دوسری نسل یہاں جوان ہو گئی ہے۔
پاکستان نے کئی دہائیاں اپنے افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کی۔ لیکن اب ریاستِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجا جائے ۔
اس سلسلے کی پہلی کڑی میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو ملک واپس بھیجا گیا اور بعد ازاں اب افغان کارڈ رکھنے والے شہریوں کو بھی باعزت طریقے سے واپس جانے کیلئے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی ہے اور اب ایکشن شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان میں افغان پناہ گزین دوہری اذیت میں مبتلا:
پاکستان میں کئی نسلوں سے رہنے والے افغان مہاجرین اب اس قدر رس بس چکے ہیں کہ ان کیلئے دوہری افتاد آن پڑی ہے۔
ایک طرف پاکستان انہیں اپنے ملک کا باسی نہ ہونے پر واپس اپنے ملک روانہ کیا جارہا ہے تو وہیں کئی برسوں تک پاکستان رہنے کی بجائے انہیں افغانستان میں پاکستانی سمجھا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: افغان پناہ گزینوں کو واپس افغانستان بھیجنے کا منصوبہ تیار
ملک بھر میں دیکھا جائے تو افغان تاجروں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ افغان تاجروں کے محنتی ہونے میں کوئی شک نہیں، یوں ان کے کاروبار بھی اب اس قدر پھیل چکے ہیں کہ انہیں اتنے تھوڑے عرصے میں لپیٹ کر واپس افغانستان لے جانا ممکن نظر نہیں آتا۔
وہیں افغان مہاجرین کو پاکستان میں رہتے ہوئے جو سہولیات یعنی تعلیم، صحت تک رسائی تھی وہ بھی اب معدوم ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے مالی حالات کے اعتبار سے افغانستان کوئی اچھی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اس وقت وفاقی دارلحکومت سمیت ملک بھر میں افغان شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ صرف خیبر پختونخوا میں اب تک آپریشن شروع نہیں ہوا ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ابھی اس پر رضا مند دکھائی نہیں دے رہے۔
لیکن یہ انحراف زیادہ دیر تک قائم رہتا نظر نہیں آرہا کیونکہ ریاست اس حوالے سے فیصلہ لے چکی ہے اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو اس میں کردار ادار کرنا ہوگا کیونکہ ریاستی پالیسی سے انحراف سے ان کا صوبہ افغان مہاجرین سے زیادہ متاثر رہے گا۔
تاہم میڈیا اطلاعات کے مطابق پشاور میں بھی افغان شہریوں کی میپنگ کی جارہی ہے اور انہیں پیغام پہنچایا جارہا ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر واپس چلے جائیں۔